دی لیجینڈ، سپر سٹار، کامیڈی کنگ اور سٹیج آرٹسٹ عمر شریف سے میری پہلی ملاقات اتوار کی رات آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی، جہاں ’واہ واہ عمر شریف‘ کے نام سے منعقدہ سٹیج شو میں دس سال بعد عمر شریف جلوہ گر ہوئے۔
شو کی ہدایات سید فرقان حیدر نے دیں۔ یقیناً یہ پاکستانی تھیٹر کے لیے یہ ایک بڑا موقع تھا اور اسی لیے بڑی تعداد میں لوگ یہ شو دیکھنے کے لیے آئے تھے، لیکن شائقین کے لیے ’واہ واہ عمر شریف‘ دیکھنا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔
اس درد سر کی آخر کیا وجہ تھی؟ اس سے پہلے آپ کا یہ جاننا ضروری ہے کہ شو ایک نہیں دو نہیں بلکہ پورے تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔ پروموشن پوسٹرز کی مطابق شو کا وقت رات نو بجے سے 11 بجے تک رکھا گیا تھا لیکن 12 بجنے سے کچھ لمحے پہلے یہ شو شروع ہوا۔
صرف تاخیر ہی نہیں بلکہ شدید گرمی نے بھی لوگوں کا سخت امتحان لیا، کیوں کہ وی آئی پی کلچر کی ماری انتظامیہ نے صرف 2 پیڈسٹل فین وی آئی پی ٹیبل کے پاس لگائے اور ایک تھیٹر کے انٹری گیٹ کے پاس، جس کی کوئی منطق سمجھ نہ آئی۔
اب ایک ہزار روپے سے زیادہ کے ٹکٹ کے پیسے بھی تو وصول کرنے تھے، لہذا مہمانوں نے کسی نہ کسی طرح یہ تین گھنٹے کا ٹارچر برداشت کر ہی لیا، یہ سوچ کر کہ 10 سال بعد عمر شریف کو ایک بار پھر سٹیج کی رونقیں بڑھاتے دیکھیں گے۔
لیکن آگے جو ہوا وہ کمزور دل افراد کے لیے پڑھنا مناسب نہیں کیوں کہ آج تک ہم نے صرف عمر شریف کی تعریف ہی سنی ہے، اس کے برعکس نہیں۔
شکر ہے آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں اے سی نہیں تھا، ورنہ یہ کیمیا کا ایک طویل امتحان بن جاتا۔ بیک سٹیج سے آنے والی عمر شریف کی آواز کے ساتھ ہی شو کا آغاز ہوا۔
شو شروع ہونے کے 10 سے 15 منٹ بعد عمرشریف کی انٹری ہوئی جس پر حاظرین نے آوازیں بلند کرکے خوب خوشی کا اظہار کیا۔
سٹیج پر ایک ٹیبل اور کرسی موجود تھی جس پر بیٹھ کر کامیڈی کنگ نے پورا 15 منٹ کا سین مکمل کیا۔ زبان میں تھوڑی لکنت کی وجہ سے ان کے لیے ڈائیلاگز کی ادائیگی تھوڑی مشکل ہو رہی تھی لیکن ڈائیلاگ کی ٹائمنگ اور سٹائل میں وہی دس سال پرانا انداز نظر آیا، اگر معیار بھی وہی ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی۔
ایک سین میں کامیڈین شکیل صدیقی، عرفان ملک اور علی حسن نے ہسپتال کا منظر پیش کیا، جس میں ایک مریض (شکیل صدیقی) اپنے معائنے کے لیے ڈاکٹر (علی حسن) کے پاس آتا ہے لیکن ڈاکٹر اور ایک مکینک (عرفان ملک) کے درمیان پھنس جاتا ہے۔
اگر پورے شو میں کسی اداکار کی حاضر جوابی اور ادائیگی کی داد دی جائے تو شکیل صدیقی اس کے حق دار ہیں۔
البتہ عرفان ملک اور علی حسن کی جوڑی نے کافی انرجی کے ساتھ پرفارم کیا۔ بدقسمتی سے کافی لطیفے پرانے تھے اور حاظرین میں سے قہقہوں کی ذیادہ آوازیں نہیں آپا رہی تھیں مگر پھر بھی باقی سینز کے مقابلے میں یہ بہتر تھا۔
ایک سین سے دوسرے سین کے درمیان تعلق بنانا کافی مشکل ثابت ہورہا تھا کیوں کہ ہر سین میں اداکاری ضرور تھی لیکن پورے ڈرامے کی کیا کہانی تھی یہ بتانا تھوڑا مشکل تھا۔ پچھلے سٹیج شوز کے مقابلے میں اس شو کے سینز کافی لمبے اور بے ربط تھے۔
تمام اداکار انتہائی تجربہ کار تھے لیکن اگر کچھ نوجوان آرٹسٹ بھی کاسٹ میں شامل ہوتے تو سٹیج ڈرامے کا معیار بہتر ہوتا بلکہ دوسرے نوجوانوں میں بڑے سٹیج آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے میں دلچسپی پیدا ہوتی۔
اب نہ جانے شدید تاخیر یا بوریت کی وجہ سے، لیکن شو شروع ہونے کے 45 منٹ بعد ہی لوگوں نے اپنی نشستوں سے اٹھنا شروع کردیا۔
آج ٹی وی اور سوشل میڈیا کے دور میں لوگ تھیٹر کا راستہ بھول گئے ہیں۔ اگر کبھی کوئی نیا اور معیاری سٹیج شو آتا ہے تو اس کے ٹکٹ کی قیمت اتنی ذیادہ ہوتی ہے کہ سنیما میں جا کر فلم دیکھ لینا زیادہ سستا لگتا ہے۔
تھیٹر کے یہی تجربہ کار اداکار اگر اس کے مستقبل اور معیار پر زیادہ توجہ دیں تو ماڈرن تھیٹر کو فروغ مل سکتا ہے۔
’واہ واہ عمر شریف‘ دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحت، مزاج اور اداکاری کے اعتبار سے عمر شریف کے سٹیج کیریئر کا سورج غروب ہوا چاہتا ہے۔