افغانستان کی طالبان حکومت نے اتوار کو اعلان کیا ہے کہ جو خواتین مختصر فاصلے کے علاوہ کسی اور سفر کی خواہاں ہیں انہیں تب تک ٹرانسپورٹ نہ دی جائے جب تک ان کے ساتھ کوئی قریبی مرد رشتہ دار (محرم) نہ ہوں۔
وزارت برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی جاری کردہ ہدایت میں تمام گاڑیوں کے مالکان سے کہا گیا ہے کہ وہ صرف حجاب پہننے والی خواتین کو سواری دیں۔
وزارت کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے اتوار کو اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 72 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے والی خواتین کو سواری کی پیشکش نہیں کی جانی چاہیے اگر ان کے ساتھ خاندان کا کوئی قریبی فرد نہ ہو۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر گردش کرنے والی یہ ہدایت ان احکامات کے چند ہفتوں بعد سامنے آئی ہے جب وزارت نے افغانستان کے ٹیلی ویژن چینلز کو خواتین اداکاروں پر مشتمل ڈرامے اور سوپ اوپرا بند کرنے کو کہا تھا۔
وزارت نے خواتین ٹی وی صحافیوں سے بھی کہا تھا کہ وہ حجاب پہنیں۔
عاکف مہاجر کے مطابق سفر کی خواہش مند خواتین کے لیے بھی حجاب ضروری ہو گا۔ وزارت کی ہدایت میں لوگوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں موسیقی بجانا بند کر دیں۔
طالبان کی حجاب کی تشریح، جو بالوں کو ڈھانپنے سے لے کر چہرے کے نقاب یا پورے جسم کو ڈھانپنے تک ہو سکتی ہے، غیر واضح ہے اور افغان خواتین کی اکثریت پہلے ہی سر پر سکارف لیتی ہے۔
اگست میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے نرم طرز حکمرانی کا وعدہ کرنے کے باوجود خواتین اور لڑکیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی صوبوں میں مقامی طالبان حکام کو سکول دوبارہ کھولنے پر آمادہ کیا گیا ہے لیکن بہت سی لڑکیاں اب بھی سیکنڈری تعلیم سے محروم ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں طالبان قیادت نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکومت کو خواتین کے حقوق نافذ کرنے کی ہدایت کی لیکن اس میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کا ذکر نہیں کیا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کو امید ہے کہ طالبان کی بین الاقوامی شناخت اور امداد حاصل کرنے کے لیے کوششیں انہیں خواتین کو رعایت دینے پر مجبور کریں گی۔ اہم عالمی عطیہ دہندگان پہلے ہی خواتین کے حقوق کے احترام کو امداد کی بحالی سے مشروط کر رہے ہیں۔