معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے افغانستان میں چار بھائیوں نے اپنے خاندانی قالین بافی کے کاروبار پر ایک بار پھر انحصار کرلیا۔
اپنے خاندان کے بزرگوں کی طرح حیدری برادرز اب پورا دن ایک بینچ پر بیٹھ کرپیچیدہ قالین بُنتے ہیں، جن کی وجہ سے افغانستان دنیا میں مشہور بھی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چاروں بھائی روزانہ طویل وقت تک کام کرتے ہیں، حالانکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ان کے پاس کوئی آئے گا جن کو وہ اپنے قالین فروخت کرسکیں۔
خاندان کے 70 سالہ سرپرست غلام سخی نے کہا کہ ہمارے پاس خاندان کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
15 اگست سے جب طالبان افغانستان میں اقتدار میں واپس آئے تو حیدری برادرز قالین بنانے کی کمر توڑ مشقت سے بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور شادیوں کے لیے پھول فراہم کرنے کا کامیاب کاروبار چلا رہے تھے۔
تاہم سخت گیرافغان طالبان بڑی حد تک شاہانہ شادیوں کی رسم پر اثر انداز ہوئے اور اس سے ان کا خاندانی کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا۔
مصیبت اپنی میں تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اپنے خاندان کے قالین بنانے کے کام میں واپس آگئے ہیں۔
ان بھائیوں میں سب سے بڑے28 سالہ رؤف، جو کابل میں رہتے اور کام کرتے ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا: ’جب طالبان نے اقتدار سنبھالا... شادی ہالوں میں زیادہ کاروبار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے دوبارہ قالین بننا شروع کیے۔
’یہ ایک بہت پرانا کام ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں منتقل کیا ہے۔‘
اب وہ ایک خاص رفتار کے ساتھ ریشم کے لٹکتے ہوئے تکلوں سے دھاگے نکال کر قالین بناتے ہیں۔ اور جب 12 میٹرکا قالین مکمل ہو جائے گا تو انہیں امید ہے کہ اس سے 6000 ڈالر (5300 یورو) تک کمائی ہوگی۔
'قومی خزانے'
نیشنل کارپٹ میکرز ایسوسی ایشن کے سربراہ نور محمد نوری کے مطابق افغانستان کی تین کروڑ آٹھ لاکھ کے قریب آبادی میں سے تقریبا 20 لاکھ قالین سازی کے سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی تنظیموں کے لیے کام کرنے والے تارکین وطن کے انخلا سے قالین کی مانگ کو شدید دھچکا لگا ہے۔
افغان قالین ۔۔۔ پیچیدہ طور پر بُنے ہوئے ریشمی قالین سے لے کر سادہ اونی قبائلی ساخت تک – کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔
کابل کے ایک تاجر کبیررؤف جو اپنی بنائی ہوئی اشیا کو’افغانستان کا قومی خزانہ‘ قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں میں ’زیادہ سے زیادہ لوگ قالین بنا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ قالین بننے والوں کی نئی افرادی قوت میں خواتین ہیں جو کام پر نہیں جا سکتیں، یا لڑکیاں جو اسکول چھوڑ دیتی ہیں اور اس کے علاوہ بے روزگار مرد شامل ہیں۔
ایرانی سرحد کے قریب ہرات میں حاجی عبدالقادر نے پہلے ہی اپنے قالین بنانے کے کاروبار کے لیے تقریبا 150 خاندانوں کو ملازمت دی ہے۔
لیکن ہر روز کام کے متلاشی دو یا تین اور لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں،
یہاں تک کہ جن لوگوں کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے وہ بھی رابطہ کرتے ہیں۔
رؤف حیدری نے کہا:’اس کے علاوہ کوئی ملازمت نہیں ہے۔‘
لیکن جن کے پاس مہارت ہے ان کے پاس روزی کمانے کا موقع ہے۔
محمد تاغی جن کا خاندان ایک دہائی سے حاجی عبدالقادر کے ساتھ کام کر رہا ہے، کا کہنا ہے کہ’جو شخص قالین بُننا جانتا ہے اس کے پاس کبھی بھی کام ختم نہیں ہوگا۔‘
تاغی جب چھوٹا تھا تو قالین بُنا کرتا تھا، لیکن اب یہ کام اس کے چار بچوں کرتے ہیں جن کی عمریں 17 سے 24 سال کے درمیان ہیں-
انہیں چار مختلف رنگوں کے دوبٹا تین میٹر کے قالین ختم کرنے میں 120 دن لگیں گے جس کے لیے ان کے خاندان کو تقریبا 500 ڈالر ملیں گے۔
محمد تاغی نے کہا کہ’مجھے اس کام پر فخر ہے۔ ہم اپنے ملک میں یہ قالین بناتے ہیں جو دنیا بھر میں افغان قالینوں کے طور پر فروخت کیے جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’میں اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو اس رقم سے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھیج سکتا ہوں۔‘
ان کا سب سے چھوٹا بیٹا، 17 سالہ نسیم جس نے 10 سال کی عمر میں قالین بُننا شروع کیا تھا، اب بھی اسکول جاتا ہے اور ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتا ہے۔
لیکن قالین کے تاجروں کے لیے حد سے زیادہ رسد کے بھی اپنے مسائل ہیں۔
ہفتے میں تقریبا پانچ قالین وصول کرنے والے حاجی عبدالقادر نے کہا کہ بینکوں سے رقم نکلوانے کی حد ہفتے میں 400 ڈالر تک محدود ہے۔
انہوں نے کہا: ’مجھے ڈر ہے کہ میرے پاس بنانے والوں کو دینے کے لیے کافی نقد رقم نہیں ہوگی۔‘
اس صورتحال کے علاوہ گاہک بھی بہت کم ہیں۔
کبیر رؤف نے شکایت کی:’غیر ملکی یہاں انہیں خریدنے کے لیے موجود نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان کی واپسی کے تناظر میں بین الاقوامی تنظیموں کے انخلا سے کاروبار کے لیے ’بدترین وقت‘ آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بہرحال پرامید ہیں۔ گلف ممالک سے فضائی روابط بحال ہو چکے ہیں اور وہاں سے افغان قالین دنیا بھر میں جاسکتے ہیں۔