چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے نسلہ ٹاور کی 780 مربع گز زمین ضبط کرنے، ٹاور کو ایک ہفتے میں مکمل گرانے اور اس کا بلڈنگ پلان منظور کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نسلہ ٹاور کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت نے نسلہ ٹاور گرانے میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو کمشنر کراچی نے بتایا کہ عمارت کے پانچ فلور گرا دیے گئے ہیں اور اس کام میں 400 مزدور حصہ لے رہے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’400 لوگوں سے ایک بلڈنگ نہیں گر رہی۔ دنیا میں ایسی عمارتیں ایک گھنٹے میں گرا دی جاتی ہے، آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘
کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ’عمارت کو مرحلہ وار گرا رہے ہیں، عمارت کے اندر والا ڈھانچہ ختم ہو چکا، صرف باہر سے نظر آ رہا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کو تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے عمارت ایک ہفتے میں مکمل طور پر گرانے کا حکم دے دیا۔
کمشنر کراچی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، جس پر جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ان سے استفسار کیا کہ ’اگر مداخلت ہو رہی تھی تو کیا آپ نے کوئی مقدمہ درج کیا؟ یہی وجہ ہے اس ملک میں نان سٹیٹ ایکٹرز کام کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو روسٹرم پر طلب کر پوچھا کہ ’کیا آپ نے مداخلت کی؟‘ تو ڈی جی نے کہا کہ ’ان کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’جس جس نے مداخلت کی سب توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، سب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ سرکاری افسر ہیں، کام میں مداخلت کی ہمت کیسے ہوئی؟‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سندھ ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی کو نسلہ ٹاور کی 780 مربع گز زمین تحویل میں لینے اور فروخت روکنے کا حکم دیتے ہوئے عمارت کے بلڈنگ پلان کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
سماعت کے دوران نسلہ ٹاور کے بلڈنگ پلان کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ملوث افسران کے خلاف محکمہ جاتی اور کرمنل کارروائی کی جائے جب کہ محکمہ اینٹی کرپشن کو ان افسران کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کا حکم دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پولیس کو ملوث افسران کے خلاف الگ مقدمہ درج کرکے آئندہ سماعت پر کرمنل کارروائی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ 15 منزلہ نسلہ ٹاور سات سال پہلے بننا شروع ہوا اور چار سال تعمیرات کے بعد فلیٹ خریدنے والوں کے حوالے کیا گیا۔ عمارت کے مکین گذشتہ تین سال تک مقیم رہنے کے بعد یہاں سے جا چکے ہیں۔