صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پہلے اور جدید بریل پرنٹنگ پریس کا نہ صرف قیام عمل میں آگیا ہے بلکہ صوبے کی تدریسی کتابوں کو بریل زبان میں تبدیل کرنے پر کام بھی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔
نئے دور کے تقاضوں اور جدید مشینری سے لیس اس پرنٹنگ پریس کو پشاور میں بصارت سے محروم بچوں کے ایک سرکاری سکول میں قائم کیا گیا ہے، جہاں پہلی سے دسویں جماعت تک کی تمام نصابی کتب کو بریل زبان میں تبدیل کرنے کے لیے اس وقت تین ملازمین یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں تین لاکھ 75 ہزار 752 معذور افراد ہیں، جن میں سے 7.2 فیصد بصارت سے محروم ہیں۔
اس کے علاوہ قبائلی اضلاع میں بھی 15 ہزار معذور افراد ہیں، جن میں سے 10 فیصد نابینا ہیں۔
اس ادارے کے سربراہ محمد عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صوبے میں نابینا افراد تقریباً 50 سال سے تعلیم و روزگار میں مواقعوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں، تاہم بد قسمتی سے کسی نے ان کو اتنا اہم نہیں سمجھا اور ان کو صرف ووکیشنل تربیت پر ہی لگائے رکھا۔‘
محمد عارف کے مطابق: ’خیبر پختونخوا کے نئے چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز نے ایک دن یہاں کا دورہ کیا اور جب ہم نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انہوں نے اس پر وزیراعلیٰ محمود خان سے مشاورت کی جس میں اس وقت وزیر سماجی بہبود ہشام انعام اللہ خان نے خصوصی دلچسپی لے کر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ادارے کے ایک مدرس اویس عالم جو خود بھی بصارت سے محروم ہیں اور شعبہ سیاسیات میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے کرچکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی نابینا افراد کے 11 سکول ہیں لیکن ان میں کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور زیادہ تر پرانی ہونے کے سبب گِھس چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور کے بریل پرنٹنگ پریس کے بعد یہ پاکستان کا سب سے جدید پریس ہے، جس کے لیے مشینری جرمنی اور ناروے سے منگوائی گئی ہے۔
اویس عالم کے مطابق: ’اس پریس کا قیام اس لیے بھی ضروری ہوگیا تھا کہ ہمارے ادارے میں بہت مشکل سے پرائمری تک کتابیں دستیاب تھیں اور چھٹی کلاس کے بعد میٹرک کے لیے ہمارے بچوں کو پنجاب جانا پڑتا تھا۔ اس وجہ سے اکثر بچے تعلیم حاصل کرنے سے رہ جاتے تھے کیوں کہ ہر کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ نئے پریس کے قیام کے بعد اب خیبر پختونخوا کے نابینا بچوں کو نہ صرف اپنی دہلیز پر تعلیم بلکہ روزگار کے مواقع بھی میسر ہوسکیں گے۔
بریل زبان اور اس کی تاریخ
بریل کوڈ نظام کے تحت لکھے جانے والے حروف کا نام ہے، جس میں ابھرے حروف کے ساتھ چوکور خانوں میں ابھرے نقطے بنائے جاتے ہیں۔ ان نقطوں کو نابینا افراد انگلیوں سے محسوس کرکے پڑھتے ہیں۔
یہ زبان فرانسیسی شخص ’لوئی بریل‘ نے 19 ویں صدی کے اوائل میں 15 سال کی عمر میں متعارف کروائی تھی۔
بریل خود بھی دو مختلف حادثات میں دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوچکے تھے، لہذا وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے، جس کی وجہ سے نابینا افراد بھی پڑھنے کے قابل ہوجائیں۔
تب سے لے اب تک دنیا بھر میں بریل کئی زبانوں میں لکھی جاچکی ہے اور ہر سال جنوری کا پورا مہینہ ’بریل لٹریسی ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔