سکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانی خاتون طاہرہ رسول نے پاکستان کے شہر فیصل آباد میں لاوارث جانوروں کے لیے ایک ہسپتال اور پناہ گاہ بنائی ہے جہاں ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لاوارث جانور جنہیں کوئی حادثہ پیش آ جاتا یا وہ کسی بیماری یا وائرس میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں ریسکیو کرکے لایا جاتا ہے اور اس وقت تک علاج کیا جاتا ہے جب تک وہ ٹھیک نہ ہوجائیں۔ جانوروں کی صحتیابی کے بعد انہیں واپس اسے ماحول میں چھوڑا جاتا ہے جہاں پر ان کی دیکھ بھال بہتر ہو۔
طاہرہ رسول نے بتایا: ’کیونکہ بہت دفعہ یہ ہوا ہے کہ جب ہم نے کتے واپس چھوڑے ہیں تو دوبارہ انہیں زہر دے دیا جاتا ہے یا گولی مار دی جاتی ہے یا وہ دوبارہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے اب ہم واپس صرف ان علاقوں میں چھوڑتے ہیں جیسے کہ واپڈا سٹی جہاں پر جانوروں سے محبت کرنے والے رہتے ہیں۔ جو جانور مستقل طور پر معذور ہیں، بیمار ہیں یا بوڑھے ہو چکے ہیں تو ان کو ہم اپنے پاس رکھتے ہیں ہم نے پناہ گاہ بنائی ہوئی ہے۔‘
اپنے بارے میں طاہرہ نے بتایا: ’میرا تعلق فیصل آباد سے ہی ہے لیکن میں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ سکاٹ لینڈ میں گزارا ہے۔ ہم جب بھی یہاں چھٹیاں منانے آتے تھے تو ہم دیکھتے تھے کہ کتوں کا بہت برا حال ہے، تمام جانوروں کا، بلیوں کا، گدھوں کا، سب کا بہت برا حال ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے ہیں، کھانے کے لیے وہ کوڑے کے ڈھیروں پر خوراک تلاش کرتے ہیں لیکن کچھ نہیں ملتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں یہاں لوگوں سے رابطہ کرتی تھی جو بھی مجھے نظر آتا تھا کہ وہ جانوروں کے لیے کام کر رہا ہے یا کوئی ویٹرنری ڈاکٹر ہے تو وہاں سے بیٹھ کر میں یا تو ڈاکٹرز کے ساتھ کوئی ارینجمنٹ کروا دیتی تھی، ان کے بل ادا کر دیتی تھی، ان کو پیسے بھیج دیتی تھی کہ علاج اچھے سے ہوتا رہے اور جانوروں کو تھوڑی بہت مدد ملتی رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طاہرہ نے بتایا کہ ایک دفعہ جب وہ یہاں آئیں تو ان کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ ایک کتا انہیں ملا جس کو وہ نہیں بچاسکیں۔ اس کی حالت بہت خراب تھی تواس بات نے ان کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کو یہاں پر مستقل کچھ کرنا چاہیے۔
’وہ چیز پھر مجھے پاکستان لے آئی اور اب میں پچھلے ڈیڑھ سال سے یہیں پر ہوں اور جانوروں کے لیے میں کام کر رہی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا: ’یہ جگہ جو میں نے لی تھی یہ تقریبا ایک ایکڑ تھی، اس میں کچھ حصہ بنا ہوا تھا، کچھ کو میں نے اپنی ضرورت کےمطابق تعمیر کروایا ہے، جیسے ایکسرے روم ہے، لیبارٹری ہے، آپریشن تھیٹر ہے، او پی ڈی ہے، میرا دفتر ہے اور یہ کینلز ہیں یا آئی سی یو ہے جن کتوں یا بلیوں کے آپریشن وغیرہ ہوتے ہیں ان کو یہاں رکھا جاتا ہے۔‘
طاہرہ رسول کے مطابق ابھی کیسز تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں جیسے کہ پورے پاکستان سے کتے ان کے پاس لائے جاتے ہیں کی وجہ سے جگہ کی تنگی ہو رہی ہے۔
طاہرہ کے مطابق: ’جھنگ سے بہت زیادہ کیسز آتے تھے جن پر ہمارے اخراجات بھی ہوتے تھے اور جانوروں کو بھی اضافی تکلیف برداشت کرنا پڑتی تھی تو پچھلے ماہ نومبر میں ہم نے وہاں پر اپنا ایک چھوٹا سا سیٹ اپ بنایا ہے، پہلے جانوروں کو وہاں سے فیصل آباد لایا جاتا تھا لیکن اب وہاں 10 منٹ کے اندر اندر جب کال آتی ہے تو وہ جانور ریسکیو کیا جا چکا ہوتا ہے اور اس کا علاج ہونے کی تصاویر ہم تک پہنچ جاتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس کام کو شروع سے لے کر اب تک میں نے خود ہی سپورٹ کیا ہے، میرے بچے وہاں سے پیسے بھیجتے ہیں، میری بہن بھیجتی ہے لیکن کام جس طرح بڑھ رہا ہے میں یہ کام پورے پاکستان میں کرنا چاہتی ہوں اور کر بھی رہی ہوں مگراب یہ میرے اور میری فیملی کے قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں اس شیلٹر کو بڑا کرنا چاہیں گی کیوں کہ یہ جگہ کافی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ جھنگ جیسے چھوٹے چھوٹے مراکز پورے پاکستان میں بنانا چاہتی ہیں۔
طاہرہ کا کہنا ہے کہ ’یہ میرا خواب ہے، انشااللہ میں اس کو ضرور پورا کروں گی کیوں کہ صرف فیصل آباد کے جانور تکلیف میں نہیں ہیں پورے پاکستان کے جانور ہیں۔‘