افغانستان سے امریکی انخلا کی افراتفری میں ہوائی اڈے کی باڑ کے پار ایک فوجی کے حوالے کیا گیا شیر خوار بچہ آخر کار کئی ماہ بعد مل گیا ہے اور ہفتے کو کابل میں اسے اپنے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا گیا۔
طالبان کے کنٹرول کے بعد جب عوام افغانستان چھوڑ کر جا رہے تھے تب سہیل احمد نامی دو ماہ کا یہ بچہ 19 اگست 2021 کو گم ہو گیا تھا۔
نومبر میں تصاویر کے ساتھ شائع ہونے والی روئٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ کے بعد یہ بچہ کابل میں ملا جہاں حامد صافی نامی ٹیکسی ڈرائیور کو ہوائی اڈے سے ملا، جو اسے پالنے کے لیے اپنے گھر لے گیا۔
سات ہفتوں سے زیادہ کے مذاکرات، درخواستوں اور بالآخر طالبان پولیس کی مختصر حراست کے بعد حامد صافی نے بچے کو اس کے نانا اور کابل میں موجود دیگر رشتہ داروں کے حوالے کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ بچے کو اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے دوبارہ ملانے کی کوشش کریں گے جو مہینوں قبل امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔
موسم گرما میں ہنگامہ خیز افغان انخلا کے دوران، بچے کے والد مرزا علی احمدی، جو امریکی سفارت خانے میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کر چکے تھے، اور ان کی اہلیہ سوریہ امریکہ جانے والی پرواز کے راستے میں ہوائی اڈے کے دروازے کے قریب پہنچ گئے تھے، جہاں ان کوخدشہ تھا کہ ان کا بیٹا ہجوم میں کچلا جائے گا۔
مرزا علی احمدی نے نومبر کے اوائل میں روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے سہیل کو ہوائی اڈے کی باڑ پر ایک وردی پوش فوجی کے حوالے کر دیا تھا، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ امریکی ہے اور انہیں پوری توقع تھی کہ پانچ میٹر(15فٹ) دور دروازے پر پہنچ کر اسے واپس لے لیں گے۔
اسی لمحے طالبان فورسز نے مجمعے کو پیچھے دھکیلا اور علی احمدی، ان کی بیوی اور دیگر بچوں کو اندر داخل ہونے میں مزید آدھا گھنٹہ لگ گیا لیکن اس وقت بچے کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔
علی احمدی نے بتایا کہ انہوں نے ہوائی اڈے کے اندر اپنے بیٹے کو تلاش کیا اور حکام نے انہیں بتایا کہ ممکنہ طور پر بچے کو الگ سے ملک سے باہر لے جایا گیا ہے اور بعد میں اسے ان کے ساتھ دوبارہ ملایا جاسکتا ہے۔ باقی خاندان کو نکال لیا گیا جو بالآخر ٹیکساس میں ایک فوجی اڈے پر پہنچ گئے۔
مہینوں تک انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹا کہاں ہے۔ یہ معاملہ 20 سالہ جنگ کے بعد جلد بازی میں انخلا کی کوششوں اور ملک سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران ان سے علیحدہ ہونے والے بہت سے والدین کی حالت زار کو اجاگر کرتا ہے۔
افغانستان میں کوئی امریکی سفارت خانہ نہ ہونے اور بین الاقوامی تنظیموں پر زیادہ دباؤ کے باعث افغان پناہ گزینوں کو اپنے اہل خانہ سے اس طرح کے پیچیدہ ری یونینز یا ان کے امکان کے بارے میں جواب حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ہم اس خاندان کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم صورت حال سے واقف ایک دوسرے امریکی عہدیدار نے کہا کہ اس کا وقت ابھی تک معلوم نہیں ہے کیونکہ انخلا کی باقاعدہ پروازیں فی الحال ملک سے باہر نہیں جا رہی ہیں۔
دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ امریکی حکومت اس معاملے کے بارے میں قطریوں اور افغانستان کے دھڑوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس دن ہوائی اڈے پر علی احمدی اور ان کے اہل خانہ اپنے بچے سے الگ ہوئے اسی دن ٹیکسی ڈرائیور حامد صافی اپنے بھائی کے اہل خانہ کو ہوائی اڈے پر چھوڑنے آئے تھے جو ملک سے جا رہے تھے اور وہ دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
حامد صافی نے بتایا کہ سہیل انہیں اکیلا ملا تھا اور زمین پر پڑا رو رہا تھا۔ جب وہ اس بچے کے والدین کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تو وہ اس کو اپنی بیوی اور بچوں کے پاس گھر لے گئے۔
صافی کی اپنی تین بیٹیاں ہیں اور انہوں نے کہا مرنے سے پہلے لڑکیوں کی ماں کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کا بیٹا ہو۔
اس لمحے انہوں نے فیصلہ کیا: ’میں اس بچے کو رکھ لوں گا۔ اگر اس کا خاندان مل گیا تو میں واپس کر دوں گا۔‘
نومبر کے اواخر میں روئٹرز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’اگر ایسا نہ ہوا تو میں خود ان کی پرورش کروں گا۔‘
صافی نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ ملنے کے بعد بچے کو چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور جلدی سے بچے کو اپنے خاندان میں شامل کر لیا۔
انہوں نے بچے کا نام محمد عبید رکھا اور اپنے فیس بک پیج پر تمام بچوں کی تصاویر پوسٹ کیں۔
لاپتہ بچے کے بارے میں روئٹرز کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد صافی کے کچھ پڑوسیوں، جنہوں نے دیکھا تھا کہ وہ ہوائی اڈے سے ایک بچہ لائے ہیں، نے تصاویر کو پہچان لیا اور مضمون کے ترجمہ شدہ ورژن پر اس بچے کے ٹھکانے کے متعلق کمنٹ پوسٹ کیے۔
بچے کے والد علی احمدی نے افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں مقیم اپنے سسر67 سالہ محمد قاسم رضاوی اور رشتہ داروں کو کہا کہ وہ صافی کو تلاش کریں اور کہیں کہ سہیل کو واپس کر دیں۔
محمد قاسم رضاوی نے بتایا کہ وہ صافی اور ان کے اہل خانہ کے لیے تحائف بشمول ذبح شدہ بھیڑ، کئی پاؤنڈز اخروٹ اور کپڑے لے کر دو دن اور دو رات تک سفر کرکے دارالحکومت پہنچے۔
لیکن صافی نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ وہ خود بھی اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں، سہیل کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
ٹیکسی ڈرائیور صافی کے بھائی، جنہیں کیلیفورنیا منتقل کیا گیا تھا، نے بتایا کہ صافی اور ان کے اہل خانہ کی امریکہ میں داخل ہونے کے لیے کوئی درخواست زیر التوا نہیں ہے۔
بچے کے اہل خانہ نے ریڈ کراس سے مدد مانگی جن کا ایک مشن بین الاقوامی بحرانوں میں علیحدہ ہونے والے لوگوں کو دوبارہ ملانے میں مدد کرتا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں تنظیم سے بہت کم معلومات ملی ہیں۔
ریڈ کراس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ وہ انفرادی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتے۔
بالآخر جب رضاوی کے پاس کوئی راستہ نہ رہا تو انہوں نے اغوا کی اطلاع دینے کے لیے مقامی طالبان پولیس سے رابطہ کیا۔
صافی نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے پولیس کے سامنے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ بچے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، اسے اغوا نہیں کر رہے ہیں۔
شکایت کی تحقیقات کی گئیں اور اسے خارج کردیا گیا اور مقامی پولیس کمانڈر نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے مسئلہ حل کرنے میں مدد کی جس میں دونوں فریقوں کی جانب سے انگوٹھے کے نشانات کے ساتھ دستخط شدہ معاہدہ بھی شامل تھا۔
قاسم رضاوی نے بتایا کہ بچے کے اہل خانہ نے حامد صافی کو پانچ ماہ تک اس کی دیکھ بھال پر ہونے والے اخراجات کی مد میں تقریباً ایک لاکھ افغانی (950 ڈالر) معاوضہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
مقامی پولیس سٹیشن کے چیف ایریا کنٹرولر حامد ملنگ نے بتایا کہ بچے کے دادا نے ہم سے شکایت کی اور ہم نے حامد صافی کو ڈھونڈا اور ہمارے پاس موجود شواہد کی بنیاد پر ہم نے بچے کو پہچان لیا۔ ؎
ہفتے کو انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کے اتفاق رائے سے بچے کو اس کے دادا کے حوالے کر دیا گیا۔
پولیس کی موجودگی میں اور بہت سے آنسوؤں کے درمیان بالآخر بچے کو اس کے رشتہ داروں کے پاس واپس کر دیا گیا۔
قاسم رضاوی نے کہا کہ صافی اور ان کا خاندان سہیل احمد کو کھونے پر پریشان تھا۔ ’حامد صافی اور ان کی بیوی رو رہے تھے، میں بھی رویا، لیکن انہیں یقین دلایا کہ تم دونوں بہت جوان ہو ، اللہ تمہیں ایک نہیں کئی بیٹے دے گا‘
قاسم رضاوی نے کہا کہ میں نے بچے کو ہوائی اڈے سے بچانے پر ان دونوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں بچے کو اس کی ماں اور والد کے پاس واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔ یہ میری واحد ذمہ داری ہے۔‘
بچے کے والدین نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ بہت خوش ہیں کیونکہ وہ ویڈیو چیٹ پر اپنی آنکھوں سے اسے دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔
قاسم رضاوی نے کہا کہ ’یہاں تقریبات، رقص، گانا ہے، یہ واقعی ایک شادی کی طرح ہے۔‘
مرزا علی احمدی، ان کی اہلیہ اور بچے جو دسمبر کے اوائل میں فوجی اڈے سے مشی گن کے ایک اپارٹمنٹ میں آباد ہوگئے تھے اب بھی اپنے بیٹے کی واپسی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
بچے کی والدہ سوریہ نے کہا کہ میں بہت غمگین تھی اور ہمیشہ اپنے بچے کے لیے روتی تھی۔ ’اب مجھے امید ہے کہ وہ بحفاظت یہاں پہنچ جائے گا۔ آخری شب میں میں خوشی کی وجہ سے سو نہیں پائی تھی۔‘