الیکشن کمیشن نے آج خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے انتخابات میں 18 دن کی تاخیر کی منظوری دے دی ہے۔ نئے فیصلے کے مطابق اب یہ انتخاب دو کی بجائے 20 جولائی کو ہوں گے۔
اسلام آباد میں ہونے والے اس اہم اجلاس میں وفاقی وزارت داخلہ، حکومت خیبر پختونخوا، صوبائی الیکشن کمشنر و دیگر متعلقہ حکام شامل تھے۔ دورانِ اجلاس خیبر پختونخوا حکومت الیکشن کمیشن کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی موجودہ خراب صورتحال انتخابات کے لیے موزوں نہیں ہے لہذا مزید کچھ دنوں کی مہلت دی جائے۔
الیکش کمیشن آف پاکستان کے مرکزی ترجمان الطاف خان نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت ان کا ادارہ 25 جولائی سے پہلے انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ ’جہاں تک انتخابات ملتوی کرانے کی بات ہے تو الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں لا سکتا۔ آج کا فیصلہ صرف دلائل کی روشنی میں ہوا ہے۔ ہماری تیاریاں 2 جولائی کے لیے مکمل تھیں صرف بیلٹ پیپرز کے آنے کا انتظار تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت کو 20 جولائی تک کا وقت دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 220 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن تین، چار، پانچ اور آٹھ کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کو بتائے کہ جیسے بھی ہو، انتخابات کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔‘
لیکن کئی مبصرین کو خدشہ ہے کہ شاید یہ انتخابات اس مدت میں بھی ممکن نہ ہوں۔ اس کی بڑی وجہ وہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں اضافے کا بل بتاتے ہیں. جس کی رو سے عمومی نشستیں 16 سے 24 ہو جائیں گی۔
سینیر صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ اگر نشستوں میں اضافے کا بل سینٹ سے آنے والے دنوں میں منظور ہو جاتا ہے اور صدر اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو انتخابی کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی جس کے لیے کم از کم چھ ماہ سے سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
تاہم صوبائی نے تاخیر کی جو دو وجوہات الیکشن کمیشن کو بتائی ہیں ان میں امن و عامہ کی صورتحال اور انتظامی امور کا ذکر ہے براہ راست نشستوں میں اضافہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انتخابات کو ملتوی کرانے کا فیصلہ خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے 3 جون کو ارسال کرنے والے مراسلے کی روشنی میں لیا گیا ہے۔ اس خط میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ضم شدہ اضلاع میں خراب امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر انتخابات 20 روز کی تاخیر سے کیے جائیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول اس خط کے چیدہ چیدہ نکات میں:
1۔ نئے ضم شدہ اضلاع میں سرحد پار پڑوسی ملک افغانستان کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ۔
2- ضم شدہ اضلاع کی سیاسی قیادت کو خطرات۔
3- شمالی وزیرستان کے حالیہ پرتشدد واقعات، اور
5۔ لیویز اور خاصہ داروں کی فل الحال سکیورٹی ذمہ داریاں سنبھالنے کی صلاحیت کا نہ ہونا بتایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیس جولائی سے زیادہ تاخیر نہیں ہوگی: شوکت یوسفزئی
انڈپنڈنٹ اردو نے انتخابات کے حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے محکمہ داخلہ کے خط بابت سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں بیان کی گئی تمام وجوہات سچ پر مبنی ہیں۔ انھوں نے انتخابات کی تاخیر پر سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کی تنقید کو بےجا اور بچگانہ قرار دیا۔
’جو لوگ انتخابات ملتوی کرنے پر برہم ہیں انھیں کیا خبر ہے کہ اس وقت سکیورٹی کی صورتحال کتنی تشویشناک ہے۔ سیاسی قائدین کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ وہ سافٹ ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ وزیرستان کے حالات کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ ہمیں 20 دن کے مہلت کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔‘
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے جو کہ 20 دن کے عرصہ میں بہت حد تک مکمل ہوجائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے الیکشن کو ملتوی کرنے کی سفارش کے بعد مختلف سیاسی شخصیات اور قبائلی اضلاع سے بعض امیدواران نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل تحریک انصاف شکست سے خوفزدہ ہے اس لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور موجودہ رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک نے قبائلی اضلاع کے انتخابات کے حوالے سے بتایا کہ دراصل انتخابات کے التوا کے پیچھے چھپے ہوئے عزائم ہیں۔’اچانک ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ حالات خراب ہو جاتے ہیں؟‘
’پچھلے چالیس پینتالیس سال سے ہم یہی سنتے آرہے ہیں کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے۔ انضمام کے بعد سے تمام قبائلیوں سے اسلحہ اکٹھا کیا جا چکا ہے۔ لہذا یہ اتنا کھربوں روپیہ جو باڑ لگانے پر خرچ کیا جا رہا ہے تو ان لوگوں کا کیا ہوگا جو ملک کے اندر مسجدوں میں کھلے عام دعوتِ جہاد دے رہے ہیں، چندے اکٹھے کر رہے ہیں۔ ہمارے انٹیلی ایجنس ادارے کہاں ہیں؟ یہ پھر اچانک کیا ہو جاتا ہے؟‘
ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں جو ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد کی رقم ان اضلاع کے لیے مختص کی گئی ہے اس کو بعض لوگ اپنے حلقوں میں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ سردار بابک کا کہنا تھا کہ فاٹا میں اربوں کھربوں کے معدنیات سمگل کرنے کے چکر میں بھی فاٹا پر حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا رہا ہے۔
قبائلیوں کا فائدہ بروقت انتخابات میں نہیں، نمائندگی ملنے میں ہے: حسیب سلارزئی، امیدوار
دوسری جانب، ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کےنوجوان امیدوار حسیب خان سلارزئی نے کہا کہ وہ عوامی مفاد کو پیش نظر رکھ کر بات کریں گے۔ ’میرا ماننا ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے سے قبائلیوں کا فائدہ ہوگا۔ کیونکہ فائدہ وقت پر انتخابات کرانے میں نہیں بلکہ نمائندگی ملنے میں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ سینیٹ سے نشستیں بڑھانے کا بل منظور کروا کر ہی الیکشن ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس سے موجودہ 16 عمومی نشستیں 24 اور مخصوص سیٹوں پر خواتین کی تعداد چار سے آٹھ ہو جائے گی۔ بصورت دیگر قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کے ممبران کی تعداد اگلے انتخابات میں 12 سے کم ہو کر چھ رہ جائے گی۔ جس کی وجہ سے قومی اسمبلی میں بھی پشتونوں کی نمائندگی کم ہو جائے گی۔‘
حسیب سلارزئی کا کہنا ہے کہ اگر سینیٹ سے نشستوں کی تعداد نہ بڑھائی گئی تو ان اضلاع میں شناختی بحران بھی آجائے گا۔ انہوں نے اس بات کو مزید تفصیل میں لے جاتے ہوئے بتایا کہ ’ضلع مہمند کی آدھی آبادی کا ووٹ شبقدر اور باقی آدھے ووٹ باجوڑ میں ہوں گے جو کئی قبیلوں کو ان کی شناخت سے محروم کر دے گا۔ اس کے علاوہ اگر تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو انتخابات کے بعد اس بل کے پاس ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قبائلی اضلاع کے عوام کو اگلی مردم شماری تک انتظار کرنا پڑے گا جو پاکستان میں کئی دہائیوں کے بعد ہوتی ہے۔‘
پاکستان کے شماریاتی ادارے کےمطابق سابق فاٹا کی آبادی 50 لاکھ ہے۔ جب کہ ایف ڈی ایم اے (فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی ) کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں شمالی وزیرستان کے صرف ایک سب ڈویژن سے بےگھر ہونے والے افرا کی تعداد تقریباً 7 لاکھ کے قریب تھی۔ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے اسی مثال کو پیش کرتے ہوئے 2017 کی مردم شماری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اگر صرف ایک سب ڈویژن کی آبادی سے بےگھر ہونے والوں کی تعداد اتنی ہے تو پورے فاٹا کی آبادی 50 لاکھ کیسے ہو سکتی
ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے لوگ نشستیں بڑھانے پر زور دے رہے ہیں۔ خاص طور پر وزیرستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ شمال اور جنوب کے اتنے وسیع علاقوں کے لیے دو صوبائی اسمبلی کے ارکان ناکافی ہیں۔