کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں واقع بک کیفے اپنی نوعیت کا واحد کیفے ہے جہاں پر ایک جدید ماحول کے ساتھ ادب اور کتب بینی کے فروغ کے لیے لائبریری قائم کی گئی ہے۔
باہر سے سادہ اور اندر سے جدید طرز پر بنے اس کیفے کا نام اورجگہ اور مقام معروف نہیں اور یہ کسی پرہجوم بازار یا مصروف مقام پر واقع نہیں ہے۔
اس میں داخل ہوتے ہی ایک پرسکون ماحول کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں روایتی ہوٹلوں والا شور شرابا بھی نہیں ہے۔ یہ ماحول اکثر لوگوں کے لیے اجنبی ہے کیوں کہ اس میں سیلف سروس کے تحت لوگوں کو سہولت دی گئی ہے۔
کیفے کے شریک بانی علی زیدی نے بتایا: ’یہ خیال پرانا نہیں ہے۔ بک کیفے دنیا میں بہت سے جگہوں پر قائم ہیں۔ ہم کوئٹہ کےماحول کے مطابق کچھ کرنا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اور کیفے کے دوسرے شریک بانی کراچی میں کام اور پڑھائی کے سلسلے میں ایک عرصہ گزار چکے ہیں۔ وہاں ایک جگہ ہے جسے ٹی 2 ایف کے نام سے جانا جاتا ہے ’جہاں لوگ جاتےہیں۔ انجوائے کرتے ہیں۔ چائے، سنیکس اور کافی سے لطف اٹھاتے ہیں۔ وہاں پرفارمنسز ہوتی ہیں، ادبی نشستیں ہوتی ہیں اور کتابیں رکھی ہیں۔ اس چیز نے ہمیں بھی متاثر کیا ہے۔‘
علی زیدی نے کہا کہ کوئٹہ میں وہ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ اس لیے ہم نے اسی طرز کی جگہ یہاں پر بنانے کا سوچا جو یہاں کے ماحول کے مطابق ہو۔
علی کہتے ہیں کہ اس کی ابتدا بہت پہلے کرنی تھی لیکن بک شاپ کھولنے کے بعد کیفےکے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ پھر کرونا آگیا اور یہ سلسلہ پھر ملتوی ہوگیا۔ اب ہم نے بالآخر یہ سلسلہ شروع کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ میں مجھے بذات خود اس قسم کے مسائل کا سامنا رہا کہ جب بھی کبھی یہ سوچتا کہ فیملی یا بیوی بچوں کےساتھ کسی جگہ چلا جاؤں جہاں ہم کچھ دیر بیٹھ کر بات کرسکیں اور کچھ ادبی اور پرسکون ماحول ہو تو ایسی کوئی جگہ نہیں ملتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی کہتے ہیں کہ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اس بک کیفے کو ڈیزائن کرنے کا سوچا اور عمل شروع کردیا ہے جس میں انہوں نے یہ خیال رکھا کہ یہ جگہ پرسکون اور جدید ہو۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ دوسری چیز جو انہوں نے اس میں شامل کی وہ لائبریری نما جگہ کا قیام ہے جس کے لیے انہیں بہت عرصہ انتظار بھی کرنا پڑا کہ جگہ ایسی ہو کہ کیفے اور لائبریری کا سیکشن بنانے کی جگہ ہو
انہوں نے کہا: ’یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک سیکشن کیفے کا ہے جہاں پر کوئی بھی شخص مرد یا خواتین آکر بیٹھ کر کچھ بھی منگوا سکتا ہے۔ دوسرا سیکشن میں لائبریری ہے اور یہاں پر بھی بیٹھ کر چائے کافی کا لطف اٹھاسکتے ہیں اور کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔‘
علی کہتے ہیں کہ اس کیفے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے سنیکس وغیرہ بھی یہاں پر رکھے ہیں، جس میں کیک اورکوکیز شامل ہیں۔ یہ تمام اشیا گھر کی بنی ہوئی ہیں۔ جو گھروں میں کام کرنے والی خواتین سے خریدی گئی ہیں۔
سیلف سروس
بک کیفے میں روایت سے ہٹ کر سیلف سروس کی بنیاد پر کام شروع کیا گیا ہے۔ جہاں پر پہلے گاہک آرڈر بک کراتا ہے۔ جس کے تیار ہونے پر اسے خود یہاں سے لے جانا پڑتا ہے۔ علی نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں میں خود سے کام کرنے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلے تو جب لوگ یہاں آتے ہیں تو سیلف سروس کا بورڈ دیکھ کر جھجھک جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب لوگ اس کو پسند کرنے لگے ہیں۔
لائبریری کے لیے جگہ مختص کرنے کے حوالے سے علی نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ایسا ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں، جہاں وہ بیٹھ کر کچھ کھانے پینے کے علاوہ کتابوں کا مطالعہ بھی کرسکیں۔
علی کے بقول: ’اس جگہ پر ہم ڈیجیٹل سکیورٹی، خواتین کے مسائل اور ادبی نشستیں بھی کرواتے ہیں۔ جن کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سہولت ہم لوگوں کو مفت فراہم کررہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ادبی نشست میں ہمارے ادیب اور دانشور شاعر حضرات شرکت کرتے ہیں۔ جو کتابوں پر تبصروں کےعلاوہ شاعری پر بحث وغیرہ کرتے ہیں۔
ادھرادبی نشست میں شرکت کرنے والےشاعر اور مصنف مصطفیٰ شاہد سمجھتے ہیں کہ ’بک کیفے ہمارے لیے صحرا میں نخلستان کے مترادف ہے۔‘
مصطفیٰ شاہد نے بتایا کہ کافی عرصے سے دوست احباب اس ضرورت کو محسوس کررہے تھے کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پر ہم بیٹھ کر کتابوں، شاعری پر اپنی آرا کا اظہار کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ یا جو کتابیں ساتھیوں نے پڑھی ہیں ان پر بات ہو۔ شاعر حضرات اپنی شاعری پیش کریں اور جس نے کوئی ناول یا افسانہ پڑھا ہو اس پر بات کی جائے لیکن ہم سوچنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرسکے۔
مصطفیٰ نے بتایا کہ ’جو بک کیفے کے نام سے دوستوں نے جگہ بنائی ہے۔ یہ ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ آج ہم نے ناول الکیمسٹ پر بات کی اور نوجوانوں نے اس پر سوالات کیے۔ جو بہت ہی مثبت پیش رفت ہے۔
بک کیفے میں کافی سے لطف اندوز ہونے والے شاہد نامی گاہک بھی ماحول اور جگہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہیں یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔