منی بجٹ پاس ہو گیا ہے۔ حکومت نے 360 ارب روپے کے ٹیکسز کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ آٹا، دال، روٹی، گوشت سمیت بنیادی ضرورت کی تقریبا تمام اشیا پر یا تو نئے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں یا پہلے سے لگائے گئے ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔
سرکار کا کہنا ہے کہ یہ سب آئی ایم ایف معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یعنی کہ ایک ارب ڈالرز لینے کے لیے تقریبا دو ارب ڈالرز کے ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف نے پانچ شرائط رکھی تھیں۔ جن میں فنانس سپلیمنٹری بل 2021 (منی بجٹ )اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل کی منظوری سرفہرست تھیں۔
حکومت کے 168 اور حزب اختلاف کے 150 ووٹ ہونے کے باعث تحریک انصاف نے تمام بلز منظور کروا لیے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ بل پاس کروائے گئے ہے وہ حاصل ہو سکے گا یا نہیں۔ کیا آئی ایم ایف منی بجٹ منظور ہونے سے خوش ہے یا نہیں۔
یہ جاننے کے لیے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ رویوینیو کی حالیہ میٹنگ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اس کمیٹی کی صدارت جے یو آئی پی کے سینیٹر طلحہ محمود نے کی۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب ان میٹنگز میں شامل نہیں ہوئے لیکن جس دن شامل ہوئے ایک نئی خبر ساتھ لے کر آئے۔
ذرائع کے مطابق انہوں نے میٹنگ میں بتایا کہ آئی ایم ایف 360 ارب روپے کے منی بجٹ سے خوش نہیں ہے۔ انہوں نے مزید ٹیکسز لگانے کے لیے قانون میں مزید تبدیلیوں کی بات کی ہے۔ لیکن میں نے کسی بھی ایسی تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
شوکت ترین صاحب کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں بھی شوکت ترین صاحب آئی ایم ایف کا کوئی بھی مطالبہ نہ ماننے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ لیکن بعدازاں تمام مطالبات کو من و عن تسلیم کر لیا گیا۔ جون 2021 میں بجٹ پیش کرنے سے پہلے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی کوئی شرط نہیں مانی گئی اور جب بجٹ پیش ہوا تو معلوم ہوا کہ تمام پالیسیز آئی ایم ایف کی لاگو کی جارہی ہیں۔ اگر ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو آنے والے دن زیادہ اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ آئی ایم ایف نے اکثر پاکستان کی تجاویز یا مطالبات کو کم اہمیت دی ہے۔ لیکن اس مرتبہ پاکستان کے ایک مطالبے کو بغیر کسی اعتراض کے تسلیم کر لیا گیا جو کہ حیران کن ہے اور شک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو 12 جنوری 2021 تک فنانس سپلیمنٹری بل 2021 (منی بجٹ )اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل پاس کرنے کا حکم دیا تھا۔ مدت مکمل ہونے سے چار دن پہلے پاکستان نے آئی ایم ایف سے مزید مہلت مانگ لی اور آئی ایم ایف نے بغیر کسی تاخیر کے مبینہ طور پر 21 دنوں کی مہلت دے دی اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ منی بجٹ میں مزید ٹیکسز لگائے جانے کی ضرورت ہے۔ معاملات دوبارہ سے طے کیے جائیں۔ یہ مطالبہ یقینا کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔
حکومت نے اس ڈر سے جلدی میں بل پاس کروا لیا کہ نئی تجاویز آنے پر یہ عذر پیش کیا جا سکے گا کہ اسمبلی سے دوبارہ بل پاس کروانا مشکل ہے۔ یاد رہے کہ بلز پاس کروانے سے پہلے 48 گھنٹے بحث ضروری ہے۔ جس پر اس مرتبہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو حکومت پہلے بھی اکثریت نہ ہونے کو بطور جواز پیش کرتی رہی ہے لیکن آئی ایم ایف نے حکومتی بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بلز کس طرح پاس کروائے جا تے ہیں۔ ان حالت کے پیش نظر یہ شبہات پیدا ہونے لگے ہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں منعقد ہونے والے آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو 1 ارب ڈالر قرض مل سکے گا یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نئے مطالبات سامنے رکھ دیے جائیں گے۔
کیونکہ 13 جنوری کو پاس ہونے والے بلز میں بہت سے فیصلے ایسے ہیں جو آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں۔ جنھیں وہ تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔ جیسا کہ حکومت نے 1000 سی سی سے 2000 سی سی تک کی مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بجٹ میں 1300 سی سی تک کی گاڑیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جس سے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والی گاڑیاں 850 سی سی سے 1300 سی سی کے درمیان ہیں۔ بلکہ پچھلے سال1300 سی سی کیٹیگری کی ایک گاڑی نے پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والی سیڈان کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس ماڈل کی گاڑیوں پر ٹیکس لگنے سے ٹیکس اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ 1300 سی سی سے 2000 سی سی تک کی گاڑیوں پر ایف ای ڈی 10 فیصد کی بجائے صرف 5 فیصد بڑھایاگیا۔ آئی ایم ایف معترض ہے کہ یہ لگژی آئٹم ہے جس پر ٹیکس بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔
سویوں، نان، چپاتی، شیرمال، بن، رسک 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے ہیں۔ آیوڈائزڈ نمک اور سرخ مرچوں پر بھی سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جبکہ 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اشیائے خورد و نوش پر ٹیکس پوائنٹ آف سیل سسٹم سے مشروط کر دیا گیا۔ یعنی کہ جو مالز یا دکانیں پی او ایس سسٹم میں ایف بی آر سے منسلک ہیں ان کی اشیا پر ٹیکس ہوگا۔
پاکستان میں زیادہ خرید و فروخت جدید دکانوں کی بجائے مقامی یا دیسی دکانوں سے کی جاتی ہے جو پی او ایس سے منسلک نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ 200 گرام تک کے دودھ پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جو کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کے برعکس ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ منی بجٹ میں غریبوں سے زیادہ امیروں کو ٹیکس ریلیف دیا گیا ہے۔ خصوصی طور پر ریئل سٹیٹ سیکٹر پر نئے ٹیکسز نہیں لگائے گئے۔ ریئل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بلکہ ٹیکس چھوٹ میں مزید توسیع دی گئی ہے۔
ریئل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ ریگولیشن 2015 کے تحت بننے والی Special Purpose Vehicle (SPV) سے حاصل شدہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ ٹیکس چھوٹ اِنکم ٹیکس آرڈینیس 2001 کے پہلے شیڈیول، پارٹ تین کی شق نمبر 99 کے تحت دی گئی تھی۔ آئی ایم ایف اس ادارے اور اس طرز پر چلنے والے بیسیوں اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا خواہاں ہے۔ جس کا ذکر حالیہ اجلاسوں میں بھی کیا گیا۔
اس کے علاوہ ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں سونے کے کاروبار کا حجم تقریبا 2.2 کھرب روپے ہے جس میں سے صرف 29 ارب روپے کا کاروبار ظاہر ہے۔ تقریبا 36 ہزار سونے کے بیوپاری ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں سے صرف 54 ایکٹیو ٹیکس پیئر لسٹ (ٹی پی ایل) میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سالانہ 160 ٹن سونا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں سے 80 ٹن سونا سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ اعدادوشمار ملک پاکستان کے ٹیکس کے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق ایف بی آر کے پاس یہ اعداشمار ہونے کے باوجود سونے کے سمگلروں کو ٹیکس نیٹ میں نہ لانا معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ گو کہ منی بجٹ میں انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ابھی اس نظام کو شفاف کرنے میں مشکلات درپیش ہیں اور ممکنہ طور پر اگلا ہدف یہی شعبہ ہے۔
حکومت پاکستان نے 360 ارب روپے کے نئے ٹیکسز تو لگا دیے ہیں لیکن یاد رہے کہ ٹیکس لگانے اور اسے اکٹھا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جتنے ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ اکٹھے بھی ہو جائیں۔ پاکستان جیسی معیشت میں جو ڈاکومینٹڈ نہیں ہے ٹیکسز کی لیکیج بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اس حوالے سے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
منی بجٹ میں اس حوالے سے خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ گو کہ پوائنٹ آف سیل سسٹم کے نفاذ کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن حال ہی میں پیش آنے والے بڑے پی او ایس سکینڈل نے اس کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس کے علاوہ یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے 750 ارب روپے کے ٹیکسز لگانے کی تجویز دی تھی۔ حکومت پاکستان کا دعوی ہے کہ اسں نے کم ٹیکسز پر آئی ایم ایف کو منا لیا ہے لیکن ماضی کے فیصلوں کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آئی ایم ایف طے شدہ ہدف کو موخر کر سکتا ہے لیکن معطل نہیں کرتا۔
آئی ایم ایف کا منی بجٹ میں مزید ٹیکسز لگانے کا بیان اور دوبارہ سے معاملات طے کرنے کی طرف اشارہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ منی بجٹ سے مطمئن نہیں ہے اور جلد ہی مزید ٹیکسز لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایک ارب ڈالر کی قسط کو نئی شرائط کے ساتھ دوبارہ روک دیا جائے۔