قومی اسمبلی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں بجٹ پر بحث ہونی تھی، جس کا آغاز اپوزیشن لیڈر کی تقریر سے ہوتا ہے لیکن آج کی کارروائی میں 40 سیکنڈ کی تقریر کے بعد ہی حکومتی بینچوں کی جانب سے ہونے والے شور اور نعرے بازی کی وجہ سے سپیکر قومی اسمبلی نے کارروائی میں 20 منٹ کا وقفہ کر دیا اور بعد ازاں مزید کارروائی کے بغیر ہی اجلاس منگل تک ملتوی کر دیا گیا۔
بجٹ اجلاس میں اپنی مختصر تقریر میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’موجودہ حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے، وہ عوام کے لیے باعث تکلیف ہے۔ اگر عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ کے تمام اعدادوشمار جعلی ہیں۔‘
انہوں نے حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’کاش ریاست مدینہ کی مثال دینے والے حکمران غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی مدد کرتے۔ اگر یہ بجٹ معاشی ترقی کا بجٹ ہے تو کیا وہ ترقی بنی گالہ کے محلات اور حواریوں کی ترقی ہے، جبکہ عوام کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔‘
ابھی شہباز شریف نے یہ چند جملے ہی ادا کیے تھے کہ حکومتی اراکین کے شور شرابے کے باعث اجلاس کی کارروائی تعطل کا شکار ہوگئی۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ ’حکومتی ارکان کو خاموش کروائیں گے تو وہ بولیں گے۔‘ سپیکر اسد قیصر نے بھی حکومتی ارکان کو خاموش کروانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جب حکومتی ارکان کی تقریر میں شور کرتی ہے تو وہ بھی انہیں تقریر نہیں کرنے دیں گے یا پھر اپوزیشن وعدہ کرے کہ وہ حکومتی تقاریر بھی سنے گی۔
اس دوران شہباز شریف اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور حکومتی ارکان کے شور بند کرنے تک تقریر کرنے سے انکار کردیا۔
ایوان کے یہ حالات دیکھتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو اپنے چیمبر میں مشاورت کے لیے مدعو کیا تاکہ اجلاس کی کارروائی کا طریقہ کار طے کیا جا سکے، جس کے بعد شہباز شریف مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کے ہمراہ اپوزیشن چیمبر میں چلے گئے۔
مشاورت کے لیے 20 منٹ کا وقفہ کیا گیا، جو دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی لیکن حاصل کچھ نہ ہو سکا، جس کے بعد مزید کارروائی کیے بغیر ہی اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اجلاس میں وقفہ ہونے کے باجود حکومت اور اپوزیشن کے جو اراکین اسمبلی ایوان میں بیٹھے تھے، ان کے درمیان نعرے بازی جاری رہی۔
اپوزیشن اراکین علی گوہر بلوچ، نورالحسن تنویر اور رومینہ عالم خان ’غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی، ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلےگی‘ کے نعرے لگواتے رہے جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور بھی اپوزیشن کے لیے ’چور چور‘ کے نعرے لگواتے رہے۔
’حکومت بجٹ بحث سے ہی بھاگ گئی‘
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت بجٹ بحث سے ہی بھاگ گئی اور اپوزیشن لیڈر کی دو لائنیں برداشت نہیں کرسکی۔‘
مسلم لیگ ن کے ہی احسن اقبال نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے کہ سرکاری بینچوں نے ہلڑ بازی کرکے اپوزیشن کو بجٹ کی بحث کا آغاز کرنے والی تقریر سے روک دیا۔‘
’ایوان میں ہنگامہ آرائی نہیں، بدتمیزی ہوئی‘
سابق وزیراعظم اور لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے ایوان میں آج ہونے والی ہنگامہ آرائی کو ’بدتمیزی‘ قرار دیا۔ انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر انہوں نے کہا: ’یہ ایوان میں ہنگامہ آرائی نہیں، بدتمیزی ہوئی ہے۔ حکومت کے وزیر بدتمیزی کر رہے ہیں اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ’آج تک قومی اسمبلی میں حکومت احتجاج نہیں کرتی، احتجاج ہمیشہ اپوزیشن کی بینچوں سے ہوتا ہے۔ تقریر سے انہیں تکلیف ہوئی ہے، اس لیے ایسا ہوا ہے۔‘
رکن اسمبلی اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق نے ایوان کی آج ہونے والی کارروائی کو ’جمہوریت کے منافی‘ قرار دیا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بجٹ آسانی سے پاس نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو ٹف ٹائم دیاجائے گا۔
اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے بھی پارلیمنٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عوام دوست نہیں بلکہ عوام دشمن بجٹ ہے اور ہم حکومت کو اس پر ٹف ٹائم دیں گے۔‘
’حکومت نہ ہلڑ بازی کرتی ہے اور نہ چاہتی ہے‘
حکومت کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان میں آج ہونے والی کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نہ ہلڑ بازی کرتی ہے اور نہ چاہتی ہے۔‘
میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ نے سوال اٹھایا: ’آپ نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سنی؟ آپ بتائیں کون ہلڑبازی کر رہا تھا؟ کون غیر پارلیمانی زبان استعمال کر رہا تھا؟ یہ ماحول بجٹ کے روز تھا اور حکومتی ممبران اپوزیشن کے رویے پر مشتعل تھے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’بطور پارلیمانی رہنما میں نے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ میں نے پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر صاحب سے وقت مانگا مگر بات نہ ہو سکی اور ہاؤس ملتوی کرنا پڑا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سپیکر صاحب کے ہاں بھی میٹنگ ہوئی مگر معاملات طے نہ ہوسکے۔‘