پاکستانی پارلیمان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کو پانچ گھنٹے کی کاروائی کے بعد حکومتی مالیاتی (ضمنی) بل 2021 ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی مالیاتی بل میں ترامیم ایوان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ عام استعمال کی اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز واپس لے لی گئی ہیں۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ایوان میں موجود تھے، جب کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف غیر حاضر رہے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے ضمنی مالیاتی بل پر ایوان میں بحث شروع کیے جانے سے پہلے عوامی رائے حاصل کرنے سے متعلق تجویز پیش کی، جسے 150 کے مقابلے میں 168 ووٹوں سے رد کر دیا گیا۔
تاہم کچھ دیر بعد ہونے والی ایک دوسری گنتی میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد کم ہو کر 146 اور حکومتی ایم این ایز کم ہو کر 163 ہو گئے۔
یاد رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے 30 دسمبر کو قومی اسمبلی میں مالیاتی (ضمنی) بل 2021 پیش کیا تھا، جس کے ذریعے نئے ٹیکسز لگانے اور ٹیکسوں میں چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز تھیں، جو حکومت کی سالانہ آمدن میں 350 ارب روپے کے اضافے کا باعث بنے گا۔
مذکورہ بل میں ڈبل روٹی، بیکری کی اشیا، بچوں کے دودھ، درآمد شدہ گاڑیوں اور دوسری کئی اشیا پر ٹیکس لگایا گیا تھا یا ٹیکس کی چھوٹ واپس لی گئی تھی۔
حکومتی ترامیم
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے مالیاتی (ضمنی) بل 2021 میں پیش اور ایوان میں منظور ہونے والی ترامیم کے نتیجے میں مندرجہ ذیل اشیا پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں رد و بدل ہو گا۔
1۔ چھوٹی دکانوں پر روٹی، چپاتی، شیرمال، سویاں، نان، بن اور رس پر ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
2۔ تاہم بڑی دکانوں (فرسٹ ٹئیر ریٹیلرز)، ریستورانوں، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دکانوں پر ان اشیا کی فروخت پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
3۔ مقامی اور ہائبرڈ 1800 سی سی گاڑیوں پر 8.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
4۔ 1801 سے 2500 سی سی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔
5۔ درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
6۔ دودھ کے 200 گرام کارٹن پر کوئی جنرل سیلز ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
7۔ 500 روپے سے زائد کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد ہو گا۔
8۔ درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بھی پانچ فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا۔
9۔ تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یکساں رہے گی۔
10۔ مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سی سی گاڑیوں پر 2.5 فیصد ڈیوٹی ہوگی، جو پہلے تجویز کردہ 5 فیصد سے کم ہے۔
11۔ مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سے 2000 سی سی کاروں پر ڈیوٹی بھی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی۔
12۔ مقامی طور پر تیار کی گئی 2100 سی سی سے زیادہ والی گاڑیوں پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
شوکت ترین کے جوابات
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے حزب اختلاف کے رہنماوں کی طرف سے ضمنی بل پر اٹھائے گئے ہر اعتراض کا جواب دیا، جب کہ انہوں نے خود بھی بل میں ترامیم پیش کیں۔
مختلف اعتراضات اور سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈبل روٹی، دودھ اور دوسری کئی اشیا بشمول لیپ ٹاپس پر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جب کہ گاڑیوں پر تجویز کردہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمنی بل کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کی ڈاکومینٹیشن ہے، تاکہ لوگ ٹیکس ادا کریں اور حکومتی آمدن میں اضافہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 18 سے 20 فیصد آبادی تک لے جائے بغیر ترقی کو 6-7 فیصد تک لے جانا ممکن نہیں ہو پائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہن اتھا کہ پاکستان میں سالانہ 18 سے 20 کھرب روپے کی پرچون کی سیلز ہوتی ہیں، جس کے برعکس صرف 3.5 کھرب روپے کا کاروبار ڈاکومینٹیڈ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی (ضمنی) بل 2021 کے ذریعے لگائے گئے 343 ارب روپے کے ٹیکسوں میں سے 280 ارب روپے دہندگان کو واپس کر دیے جائیں گے، جب کہ حکومت کے پاس صرف 71 ارب روپے رہیں گے۔
’اس ضمنی بل میں ٹیکس نہیں لگایا گیا، بلکہ بات صرف ڈاکومینٹیشن کی ہے، جس سے سب بھاگتے ہیں، کیونکہ ڈاکومینٹیڈ ہونے سے ان پر انکم ٹیکس لگے گا، جو وہ نہیں دینا چاہتے۔’
انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ ضمنی مالیاتی بل کی وجہ ملک میں مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا، اور نہ لوگوں کے معیار زندگی پر منفی اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت آئندہ سال کے دوران بڑے حجم کے قرضے دے گی جس سے غریب طبقے کو فائدہ پہنچے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شوکت ترین نے کہا: ‘آئی ایم ایف کا پاکستان حکومت پر 700 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا دباو تھا، لیکن قبول نہیں کیا گیا، بلکہ صرف امیروں کے زیر استعمال چیزوں پر ٹیکس لگائے گئے۔’
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں معاشی بہتری آ رہی ہے، اور آئندہ سال کے دوران اس میں مزید بہتری دیکھنے میں آئے گی۔
ایوان کی کارروائی
جمعرات کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی سپیکر اسد قیصر نے کاروائی کے ایجنڈے پر موجود دوسرے آئٹمز کو نظر انداز کرتے ہوئے مالیاتی (ضمنی) بل 2021 پیش کیے جانے کی اجازت دی، جس کی حزب اختلاف کے اراکین نے مخالفت کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال نے کہا کہ کارروائی کے ایجنڈے میں مالیاتی ضمنی بل پر سینیٹ کی سفارشات پر بحث بھی شامل ہے، جس کا کیا جانا ضروری ہے۔
سپیکر اسد قیصر کا حزب اختلاف کے اعتراض پر کہا کہ سینیٹ کی سفارشات پر منگل کو بحث ہو چکی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی شازیہ مری اور حزب اختلاف کے دوسرے اراکین نے تجویز پیش کی کہ ضمنی مالیاتی بل پر ایوان میں بحث شروع کیے جانے سے پہلے عوام سے رائے لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ بل سے ملک کی بہت بڑی آبادی کے متاثر ہونے کا امکان ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر عوام کی رائے حاصل کی جائے، جو قانون اور آئین کے عین مطابق ہو گا۔
سپیکر اسد قیصر کے دریافت کرنے پر وفاقی ویر خزانہ شوکت ترین نے اس تجویز کی مخالفت کی، جس پر سپیکر ایوان سے زبانی دریافت کیا اور تجویزکی مخالفت زیادہ ہونے پر اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کے شاہد خاقان عباسی نے تجویز کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں کی گنتی کا مطالبہ کیا، جس کو قبول کرتے ہوئے سپیکر نے گنتی کا حکم دیا۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ تالیوں اور ڈیسک بجنے کے شور کے دوران ایوان میں داخل ہوئے۔
150 ایم این ایز ترمیم کی حمایت میں کھڑے ہوئے، جب کہ 168 نے مخالفت کی، اور حزب اختلاف کی عوامی رائے لینے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔
حزب اختلاف کی تجویز کے مسترد ہونے کے بعد سپیکر نے مالیاتی ضمنی بل پر شق بہ شق بحث شروع کی، جس میں حزب اختلاف کے اراکین کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی ترامیم پیش کیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے حزب اختلاف کے اراکین کی طرف سے پیش کی گئی تمام ترامیم کی مخالفت کی، جس پر سپیکر نے ہر مرتبہ ایم این ایز سے زبانی پوچھ کر تجاویز کے مسترد ہونے کا اعلان کیا۔
حزب اختلاف کے اراکین قومی اسمبلی نے سپیکر اسد قیصر کو ہر ترمیم پر آواز کے ذریعے ووٹنگ کے چیلنج ہونے پر گنتی کروانے کا مطالبہ کیا، اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے قوانین کا حوالہ دیا، تاہم سپیکر اس مطالبے کو مسترد کرتے رہے۔
حزب اختلاف کے اراکین نے اپنی تقاریر میں کہا کہ کیونکہ پہلی گنتی کے بعد بہت سارے حکومتی ایم این ایز ایوان سے چلے گئے ہیں اس لیے حکومت دوبارہ گنتہ کروانے سے بھاگ رہی ہے۔
وفاقی وزرا بابر اعوان، اسد قیصر اور پرویز خٹک نے حزب اختلاف کے اس مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے سپیکر اسد قیصر کو کاروائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔
ایک موقع پر وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے یہاں تک کہہ دیا: ‘یہ لوگ وقت ضائع کر رہے ہیں، اور سپیکر صاحب ماضی کی طرح آپ بھی بلڈوز کریں اور کارروائی کو بڑھائیں۔’
حزب اختلاف کے بار بار اسرار کرنے پر سپیکر اسد قیصر نے ایک مرتبہ پھر ایک ترمیم کی تجویز پر گنتی کروائی، جس کے نتیجے میں حزب اختلاف کے 146 اور حکومت کے 163 اراکین ایوان میں پائے گئے۔
سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن پر واضح کیا کہ اس گنتی کے بعد باقی تمام ترامیم پر آواز کے ذریعے اراکین سے ان کی مرضی جانی جائے گی، اور گنتی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
حزب اختلاف کی ایک ترمیم پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دوائیوں کی صنعت پر ٹیکس لگانے سے دواوں کی قیمت بڑھیں گی، جب کہ ضمنی مالیاتی بل کے باعث ملک میں عمومی طور پر مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کی صنعت پہلے سے ڈاکومینٹیڈ ہے تو اس پر مزید ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت پیش آ رہی ہے؟
پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کوئی ٹیکس نہ لگانے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب وہ اپنی بات سے مکر رہے ہیں۔
ایوان کی کاروائی کے دوران حزب اختلاف کے اراکین اور سپیکر کے درمیان چھوٹی موٹی نوک جھونک بھی ہوئی، اور مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے تحریک انصاف کے اسد قیصر کے کئی فیصلوں پر تنقید کی، بلکہ ایک مرحلے پر ان پر اپنی سیاسی جماعت کی حمایت کا الزام بھی لگایا۔
ایک موقع پر سپیکر اسد قیصر نے رولز معطل کرنے کا ذکر کیا تو مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کیا جائے، اور بل پر بحث کو پورے دو دن دیے جائیں کہ ہر رکن اس پر بات کر سکے۔
پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا: ‘یوں لگتا ہے گن پوائنٹ پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم یہ سب کچھ رات کے اندھیرے میں لوگوں سے چھپ کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟’