پاکستان آٹوموبیل ایسوسی ایشن کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق 2021 میں سوزوکی کمپنی کی آلٹو گاڑی سب سے زیادہ فروخت ہوئی۔
ان اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ سال کے آخری چھ مہینوں میں 600 سی سی آلٹو کے مجموعی طور پر 38629 یونٹ بکے جو ایک ہزار سی سی یا اس سے اوپر کی تمام گاڑیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔
1300 سی سی گاڑیوں میں ہونڈا سوک اور سٹی سب سے زیادہ پسند کی گئیں اور مجموعی طور پر پچھلے چھ مہینوں میں دونوں گاڑیوں کے17620 یونٹس بکے۔ اس کے بعد ٹویوٹا کرولا کے 15903یونٹس بکے۔
اس کیٹیگری میں تیسرے نمبر پر ٹویوٹا یارس کے گذشتہ چھ مہینوں میں 13 ہزار سے زائد یونٹس فروخت ہوئے۔
ایک ہزار یا اس سے کم سی سی گاڑیوں میں دوسرے نمبر سب سے زیادہ بکنے والی گاڑی سوزوکی کلٹس ہے جس کے 14 ہزار سے زائد یونٹس بکے۔
گذشتہ چھ مہینوں میں ’کیا‘ اور ایم جی کے علاوہ سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا کے مجموعی طور پر ایک لاکھ 14ہزار سے زائد یونٹ فروخت ہوئے جو 2020کے آخری چھ مہینوں کے مقابلے میں تقریباً 58 فیصد اضافہ ہے۔ ان چھ مہینوں میں 67 ہزار گاڑیوں کے یونٹس بکے۔
ہنڈائی نے اب تک ملک میں ٹوسوں، ایلانٹرا اور سوناٹا لانچ کیں۔ تاہم اعدادوشمار کے مطابق نومبر کے مقابلے میں دسمبر میں ایلانٹرا کی مانگ میں چھ فیصد تک کمی جبکہ سوناٹا کی مانگ میں 41 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی۔ اس عرصے میں ٹوسوں کی مانگ میں تقریباً 370 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
گذشتہ دسمبر میں نومبر کے مقابلے میں ٹویوٹا فورچیونر کی مانگ میں 41 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔
تاہم 2020 کے مقابلے میں 2021 کے آخری چھ مہینوں میں اس کے زیادہ یونٹس فروخت ہوئے۔ 2020 کے آخری چھ مہینوں میں فورچیونر کے 1247یونٹس جبکہ 2021 میں اسی عرصے میں 3619 یونٹس بکے۔
آلٹو کیوں پسند کی گئی؟
اسلام آباد میں جاپان موٹرز شو روم کے مینیجر زبیر عالم خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وبا کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی لہٰذا وہ بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں چھوٹی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہزار یا اس سے اوپر سی سی کی گاڑیوں کے مقابلے میں آلٹو سستی ہونے کی وجہ سے زیادہ مقبول رہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چھوٹی گاڑیوں کے پارٹس آسانی سے مل جاتے ہیں جبکہ ان کا پیٹرول کا خرچہ بھی کم ہے۔
زبیر سے جب دسمبر میں فورچیونر کی مانگ میں کمی کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایم جی اور کیا کے مارکیٹ میں آنے سے فورچیونر کو زیادہ پسند نہیں کیا جا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فورچیونر کے مقابلے میں کیا اور ایم جی کی گاڑیاں سستی ہیں اور فیچرز زیادہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زبیر نے بتایا، ’فورچیونر میں لیگ سپیس کا مسئلہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایم جی اور سپورٹیج میں لیگ سپیس زیادہ ہے۔‘
کراچی کی رمیشہ علی نے پچھلے سال نومبر میں سوزوکی آلٹو کی بکنگ کرائی تھی جو مارچ میں ڈیلیور ہونی ہے۔ رمیشہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آلٹو خریدنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نئی گاڑیوں میں سب سے سستی ہے۔
’میں نے تین مہینوں تک ریسرچ کی اور چونکہ میں استعمال شدہ گاڑی نہیں لینا چاہتی تھی لہٰذا آلٹو ہی میرے بجٹ میں پوری اترتی تھی۔
’آلٹو سستی بھی ہے اور پیٹرول کا خرچہ بھی کم ہے۔ آلٹو کے بعد کلٹس کا آپشن تھا جو 18لاکھ روپے تک پڑتی لیکن میں نے آلٹو مینول 14لاکھ پر بک کرائی اور اپنی ڈیلیوری کا انتظار کر رہی ہوں۔‘