متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں سوموار کو ایندھن کے ٹینکر میں دھماکے سے تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہونے کی خبروں نے ایک مرتبہ پھر عالمی ذرائع ابلاغ اور خطے کی سیاست میں تلاطم پیدا کر رکھا ہے۔
یو اے ای کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’وام‘ کے مطابق دھماکے میں ایک پاکستانی اور دو بھارتی شہری مارے گئے جبکہ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
متعلقہ اماراتی حکام حوثیوں کی جانب سے ابوظہبی میں سویلین تنصیبات پر حملے کو ذمہ دارانہ طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’خطے کے استحکام پر نقب لگانے کی ناکام کوشش کرنے والی ایران نواز دہشت گرد ملیشیا انتہائی کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر کی جانے والی ان کی اس حماقت کا انجام شکست فاش کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن میں سرگرم حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات کی میدان جنگ میں حالیہ کامیابیوں پر ابوظہبی کو مشتبہ ڈرون حملے کے ذریعے جواب دینے کی کوشش میں خلیج کے اس اہم کاروباری اور سیاحتی مرکز کی سالمیت کو کسی حد تک خطرات سے ضرور دوچار کیا ہے۔
یمن میں متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ جائنٹ بریگیڈ فورس نے محاذ جنگ پر داد شجاعت دینے کے بعد ایران نواز حوثیوں کے قبضے سے شبوہ کا اہم علاقہ بازیاب کرایا۔ اس سے پہلے عین ضلع بھی اسی فورس نے آزاد کرایا تھا۔
ادھر عرب اتحاد کی مارب صوبے میں کامیابیوں سے یمنی باغیوں کی رات کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ اپنا غم کرنے اور راہ فرار اختیار کرتی ہوئی فوج کے حوصلے بلند کرنے کی خاطر حوثیوں کو سرحد پاس ایسی ہی کارروائی کی ضرورت تھی کی جس کی بازگشت عالمی میڈیا میں سنائی دے سکے۔ لیکن حوثیوں کی اس عاقبت نااندیش کارروائی نے بری طرح بیک فائر کیا ہے اور آج ساری عرب، اسلامی اور مغربی دنیا ان کی اس کارروائی پر انہیں لعنت ملامت کر رہی ہے۔
اس وقت شبوہ صوبے کے تمام 17 اضلاع پر بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی یمنی حکومت کی عمل داری ہے۔ حوثی اپنی جان بچا کر الییضا کی جانب بھاگ گئے ہیں۔ شبوہ صوبہ یمن کا تیسرا اہم علاقہ ہے اور ملک کے جنوبی حصے کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کا محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
یمن کے علاقے مارب، شبوہ بشمول صنعا ہوائی اڈے جیسے محاذوں پر گذشتہ دنوں لڑائی میں تیزی دیکھی گئی۔ اسی طرح الحدیدہ کے علاقے میں نئے اہداف سامنے آئے۔ حوثی اپنی موت کو آواز دیتے ہوئے اب عسکری سرگرمیوں اور ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں اپنی ’طاقت‘ آزمانے جا رہے ہیں۔
گذشتہ دو ہفتوں سے جاری جنگ میں حوثی یا ان کے مقرر کردہ بندوق بردار لڑائی کے تازہ ہلے میں بڑے پیمانے پر پہنچنے والے بھاری جانی اور مالی نقصان کے بعد کئی ڈائریکٹوریٹس سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
یمن جنگ کے آغاز کے بعد اس تازہ لڑائی کے نتیجے میں حوثیوں کے زیر نگیں کئی اہم ٹھکانے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اب ایران کے حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے جنگجو مارب تک رسائی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ حوثیوں نے گذشتہ برس کے آغاز سے مارب کا محاصرہ کر رکھا تھا، انہیں امید تھی کہ وہ خطے میں تیل کی دولت سے مالا مال ان علاقوں کا قبضہ حاصل کر لیں گے۔
یمن میں حوثی ملیشیا پر میدان جنگ اور فضائی حملوں کی شدت کے بعد روز بروز دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہو کر یمنی باغیوں نے سمندر کو اپنی جارحیت کے لیے نیا ہدف بنا لیا ہے۔ الحدیدہ سے پہلے ایک کشتی پر سوار حوثی ملیشیا کے مسلح جنگجوؤں نے بین الاقوامی سمندری حدود میں متحدہ عرب امارات کا پرچم بردار جہاز ’روابی‘ ہائی جیک کر لیا۔
حوثیوں کا یہ اقدام بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے انتہائی سنجیدہ خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس خطرناک اقدام نے اقوام متحدہ کے کان بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ مختلف ملکوں نے حوثی باغیوں کے ہاتھوں ’جدید دور کی بحری قذاقی‘ کی مذمت کے لیے دھڑا دھڑ بیان دیے۔
ادھر حوثیوں نے الزام عائد کیا کہ اماراتی جہاز کو مشتبہ اسلحے کی کھیپ لے جانے کی بنا پر قبضے میں لیا، تاہم دنیا نے دروغ گوئی کے رسیہ باغیوں کی اس دلیل کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے اندر آئینی حکومت کی رٹ بحالی میں مصروف کئی ملکی عرب اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے یمن کی فضائی میں کارروائیاں کی ہیں۔ ان لڑاکا طیاروں کے نشانے پر حوثیوں کے زیر استعمال گولا بارود کے ڈپو، میزائل، ڈورن طیارے اڑانے کے لیے استعمال ہونے والے لانچنگ پیڈز اور ان کی جنگی مشینری کے خفیہ ڈپو تھے۔
جواباً سعودی علاقوں پر حوثیوں کے ڈورنز اور بیلسٹک میزائل حملوں میں تیزی آنے لگی۔ مملکت کے اندر اپنے اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی بڑی تعداد میں ارسال کیے جانے والے حوثی ڈورنز کو تباہ کیا جاتا رہا۔ تاہم شبوہ، مارب اور گرد ونواح کے علاقوں میں ایسی کون سی پیش رفت ہوئی کہ جس نے یمن جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا؟ اس سوال کے جواب میں حوثیوں کے حالیہ اقدامات کی وضاحت موجود ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ حوثی، خود کو پہنچنے والے حالیہ نقصانات پر ایران کو بھی مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں تہران پر خطے کے ممالک میں اپنی مداخلت ختم کے لیے زور ڈالا جا رہا ہے۔ ایران کی حوثیوں کے لیے حمایت کی وجہ سے یمنی باغی اتحادی فوج کے عسکری عتاب کا شکار ہیں۔
دوسرے حلقوں کی رائے میں جنگ میں تیزی دراصل عرب اتحاد کی فائر بندی کے لیے طے کردہ مدت ختم ہونے کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس فائر بندی پر عرب اتحاد نے من وعن عمل کر کے دکھایا لیکن حوثیوں کی جانب سے اس کا نتیجہ صفر رہا۔ یمن تنازع کے حل کی خاطر مذاکرات سے انکار کے بعد یہ سیز فائر ختم ہوا۔
یمن میں میدان جنگ کی تازہ صورت حال کی زیادہ حقیقت پسندانہ وضاحت یہی ہے کہ ملک میں عرب اتحاد کے حامی یمنی شہری فوجی تعاون اور مشترکہ کوششوں کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ یمن کی پیادہ فوج حوثیوں کو عرب اتحادی طیاروں کی معاونت کے بغیر ان کے زیر قبضہ علاقوں سے نکال نہیں پا رہے تھے، عرب اتحاد کی بھرپور فضائی کارروائی سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جنگی مشینری، مضبوط عسکری ٹھکانے تباہ کرنے میں بڑی مدد ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یمنی معاشرے کے اندر عرب سپرنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حوثیوں نے یمن کے تیسرے ریجن پر تسلط جما لیا اور نتیجتا علاقے کی نصف آبادی حوثیوں کے رحم وکرم پر آ گئی، تاہم حالیہ جنگ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مشترکہ کوششیں ان کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
ایران نے یمن کو اسلحہ کی تیاری اور اس کا گودام بنا رکھا ہے۔ تہران چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اپنے یمنی ’ہم منصب اور ہم مسلکوں‘ کو فوجی ساز وسامان باقاعدگی سے سمگل کرتا چلا آیا ہے۔ اندریں حالات ایران اور حوثیوں کی سمندر کے ذریعے سمگلنگ اور ہائی جیکنگ جیسے اقدامات کی وجہ سے جنگ کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔
عرب اتحاد پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ ’یمنی بندرگاہوں کے ذریعے کی جانے والی ہائی جیکنگ اور اغوا کی کارروائیوں کے بعد یہ مقامات اب قانونی فوجی ہدف کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔‘ اتحاد سمجھتا ہے کہ ’روابی نامی اماراتی پرچم بردار بحری جہاز کی ہائی جیکنگ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘
حالیہ پیش رفت یمن کے تمام اقدامات کو قانونی جواز اور ایک نئی جنگ جیتنے کی سمت ایک نیا قدم خیال کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یمن جیسے وسیع اور عظیم الشان ملک کی آزادی کے لیے لمبی جنگ کامیابی سے ہمکنار ہونے جا رہی ہے۔
یمن کی تازہ ترین صورت سے وہ مفروضے بھی اپنی موت مر گئے ہیں جن میں موقف اختیار کیا رہا تھا کہ عرب اتحاد نے یمنی قضیہ سے دست کشی اختیار کر لی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی بھی نفی ہے کہ یمن میں اسلحہ یا لاجسٹک سپلائی کی کمی ہے یا پھر یمنی اطراف کے درمیان باہمی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے بعد امارات کی سرزمین تک جنگ کا دائرہ پھیلا کر اپنے سرپرست ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات کی فہرست میں نیا اضافہ کیا ہے، لیکن امارات کو تر نوالہ سمجھنے والے حوثی باغیوں کے لیے ان کا نیا سرحد پار میدان جنگ موت کا پروانہ ثابت ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کے تجزیے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ منصور جعفر کے مضامین جو ہر جمعے کو شائع کیے جاتے تھے اب آپ کو جمعرات کو پڑھنے کو ملا کریں گے۔