طالبان نے اپنے ایک جنگجو کو ہزارہ برادری کی خاتون کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں اور خواتین کے حقوق کے خاتمے کے حوالے سے ہونے والے احتجاج کے بعد انہوں نے اسے ’ایک غلطی‘ قرار دیا ہے۔
25 سالہ زینب عبداللہی گذشتہ جمعے کو افغان دارالحکومت کابل کے دشت برچی محلے میں اس وقت ہلاک ہو گئی تھیں جب ایک چیک پوسٹ پر طالبان جنگجو نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹر پر کہا کہ عبداللہی ’غلطی سے ماری گئیں‘ اور فائر کرنے والے جنگجو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کا ایک سینئیر وفد تعزیت کے لیے زینب عبداللہی کے گھر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی ایک ٹویٹ کے مطابق ان کے خاندان کو تقریبا چھ لاکھ افغانی ( 4200 پاؤنڈز) معاوضے کی رقم بھی دی گئی تھی۔
وزارت کی طرف سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں وفد میں شامل عہدیداروں کو ان کے خاندان کے ایک فرد کو نوٹوں کی ایک گٹھی دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اگست2021 میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونےکے بعد سے اتوار کے روز درجنوں افراد خواتین کی ہلاکتوں اور ان پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
خواتین نے جیل کی ایک خاتون افسر عالیہ عزیز کا پتہ جاننے کا بھی مطالبہ کیا جو کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔
تاہم مظاہرین کو طالبان کے جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان پرمرچوں والے پانی کا سپرے کیا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے کرنٹ والے آلے کا استعمال کیا۔
انسانی حقوق کے متعدد گروپوں نے اشارہ دیا ہے کہ طالبان نے’اسلامی قانون میں‘ موجود حقوق نسواں کا احترام کرنے کے وعدوں کے باوجود خواتین کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں اور خواتین کے کام کرنے اور سکولوں میں جانے پر پابندی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اگست میں طالبان نے صوبہ دائی کنڈی میں ہزارہ برادی کے 13 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ متاثرین میں ایک نوعمر لڑکی اور نو سابق سرکاری فوجی بھی شامل تھے جنہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ تاہم طالبان نے ان ہلاکتوں کی تردید کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیعہ ہزارہ برادری جو افغانستان کا تیسرا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے، کو اسلامک اسٹیٹ جیسے سخت گیر سنی گروپوں کی جانب سے برسوں سے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ طالبان بھی انہیں نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ایگنس کالامارڈ نے کہا کہ ’یہ ظالمانہ پھانسیاں اس بات کا مزید ثبوت ہیں کہ طالبان وہی ہولناک زیادتیاں کر رہے ہیں جن کے لیے وہ افغانستان کے اپنے سابقہ دور حکومت میں بدنام تھے۔‘
طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں بھی عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
طلوع نیوز نے اہل خانہ اور حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کے روز مسلح جرائم پیشہ افراد اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک نوجوان باکسر مرتضیٰ ابراہیمی ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچیلٹ نے منگل کے روز افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور خواتین کے حقوق پامال ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ مجرموں کا احتساب کرے۔
بیچیلٹ نے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں کہا کہ ’میں تمام ریاستوں سے کہتی ہوں کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق سے انکار افغان معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہا ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو ’غیرمعمولی تناسب کی انسانی تباہی کا سامنا ہے۔‘
© The Independent