پاکستان میں جائیداد کے کاروبار کو پہلی مرتبہ آن لائن (ڈجیٹل) شکل دینے والی کمپنی زمین ڈاٹ کام کے سربراہ ذیشان علی خان کا ایک انٹرویو میں کہنا ہے کہ پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار کامیاب اور محفوظ ترین سرمایہ کاری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے جانے والے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں مورگیج کا سلسلہ شروع کر لیا جائے تو ریئل سٹیٹ کا کاروبار چار گنا بڑھ سکتا ہے۔
ان کے مطابق: ’ہم بات کرتے ہیں ریئل سٹیٹ میں لوگ پیسا بڑا کماتے ہیں اور بڑی سٹیبل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فنڈامینٹل ایسے بنے ہوئے ہیں۔ اگر آج مجھ سے پوچھیں کہ ریئل سٹیٹ میں انویسٹ کرنا چاہیے تو یہ ایک محفوظ انویسٹمنٹ ہے۔‘
سال 2006 میں قائم کیے گئے پلاٹوں اور مکانات کی خریدوفروخت کے اس بڑے پورٹل کے چیف آپریٹنگ آفیسر ذیشان علی خان کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان کا دوسرے ملکوں سے موازنہ کریں تو ایہاں ریئل سٹیٹ ابھی بھی سسستی ہے۔
ان کے مطابق: ’اگر آپ انڈیا میں چلے جائیں اور ان کے شہروں کے اندر جا کر دیکھیں گے خاص طور پر شہری علاقوں میں تو وہاں آپ کو ریئل سٹیٹ چار گنا مہنگی نظر آئے گی۔ اسی طرح اگر آپ مغرب کی طرف جائیں تو سب کو آئیڈیا ہے کہ ریئل سٹیٹ کتنی مہنگی ہے۔‘
زمین ڈاٹ کام کا دعوی ہے کہ وہ دنیا کے پانچ بڑے پراپرٹی پورٹلز میں سے ایک ہے۔ پاکستانی ریئل سٹیٹ کو ہر ایک کے لیے قابل رسائی اور آسان بنانے کے ہدف کے ساتھ اس کے آغاز کے بعد سے اس نے خریداروں اور فروخت کنندگان کو انتہائی آسان طریقے سے آن لائن منسلک کر دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں ریئل سٹیٹ میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کیوں ہو رہی ہے تو ذیشان علی خان کا کہنا تھا کہ یہ محفوظ انویسٹمنٹ ہے۔ ’اگر ہم زمین ڈاٹ کام کے حوالے سے بات کریں تو مکانات کے مقابلے میں پلاٹس کی مانگ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاٹ میں لوگ زیادہ انویسٹ کرتے ہیں اور محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اور وہ یہ سرمایہ بعد میں بچے کی شادی کرنی ہو یا تعلیم کے لیے باہر بھیجنا ہو اسے استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کا مشورہ ہے کہ ’آپ کو بالکل بھی ریئل سٹیٹ میں سرمایہ لگانے سے نہیں گھبرانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا: ’ریئل سٹیٹ الگ سے کوئی انڈسٹری نہیں ہے۔ یہ بہت ساری انڈسٹریز کا مجموعہ ہے تو اگر اس کے ساتھ 100 سے زیادہ انڈسٹریز منسلک ہیں لہذا ریئل اسٹیٹ ایک ڈرائیور ہے۔ ایک انجن کی طرح ہے انجن چلے گا تو گاڑی چلے گی تو ایک تو اس چیز کو بالکل سائڈ پر پارک کر دیں کہ ریئل اسٹیٹ کے فوائد کیا ہیں اور کیا ملک کے لیے نقصان زیادہ ہے؟‘
ذیشان علی خان سمجھتے ہیں کہ جائیداد معیشت کا بنیادی حصہ ہے۔ ’دنیا بھر میں جو ریئل سٹیٹ میں ٹرانزایکشنز ہوتی ہیں وہ پاکستان سے بہت زیادہ ہیں حالانکہ پاکستان کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق یہاں پر ٹوٹل ٹرانزایکشن والیوم ہے وہ تین سے چار لاکھ ہے اگر آپ صرف اپنی مورگیج مارکیٹ کو شروع کر لیں اور لوگ قرضہ لے سکیں تو شاید یہ تین سے چار گنا بڑھ جائے۔‘
ان کا اصرار ہے کہ طویل مدت کے اعتبار سے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ بڑی مستحکم ہے۔ ’مسائل ہمارے ہاں ہیں وہ ریئل سٹیٹ سے ہٹ کر ہیں۔ آپ کی مینوفیکچر انڈسٹری اتنی بڑی نہیں ہے۔ آپ خود کفیل نہیں ہیں۔ ہمارا میٹریل تو باہر سے آتا ہے اور ہم اپنی معیشت کو استحکام نہیں دے سکتے۔ اور جب ترقی نہیں ہو گی تو خرچ کرنے کی صلاحیت (سپینڈنگ پاور) نہیں بڑھے گی اور ریئل سٹیٹ افورڈ ایبل نہیں ہوگی۔‘
’ہم اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ بزنس کے اعتبار سے آپ کی کیش بیس ہونے کی وجہ سے زمین کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے خریدار کے پاس ہمت نہیں ہے کہ وہ خرید سکے۔‘
ان کے مطابق: ’اس کو افورڈایبل کرنے کے لیے حکومت نے شروعات کی ہیں نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم سے لے کر ماڈلز میں سبسڈی دی ہے۔ اس وجہ سے آپ افورڈایبلیٹی کو اوپر لے جا رہے ہیں اور جو اعدادوشمار آ رہے ہیں میرے اندازے کے مطابق ابھی کوئی فکس نمبرز ریلیز نہیں ہوئے لیکن سو فیصد تک اضافہ دیکھا ہے جو قرضے دیے جارہے ہیں ایک سال کے اندر اندر۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذیشان علی خان کا کہنا ہے کہ ریئل سٹیٹ کسی بھی ملک میں اس کی ریڑھ کی ہڈی ہے لہذا آپ اس کو نقصان سے وابستہ کر ہی نہیں سکتے۔ ’ہمارا فوکس یہ ہے کہ ہم نے ہر بندے کو ٹارگٹ کرنا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب جو گورنمنٹ کوشش کر رہی ہے لیکن ہمیں بھی اس کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسے مزید سستا کرنے کے لیے خام مال کو مینوفیکچر خود کریں۔ ’میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں پاکستان کی سٹیل مل جو پہلے جتنی پروڈکشن کرتی تھی اب اس کی 25% بھی نہیں کرتی یہ میں آخری 30 سالوں کی بات کر رہا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ اپنی پروڈکشن نہیں کریں گے تو آپ خِام مال کی قیمت نیچے کیسے لے کر آئیں گے۔ گولڈ، کاپر، سٹیل ہم درآمد کرتے ہیں، سیمنٹ کی پروڈکشن ہماری اچھی ہے تو اگر ہم یہ ساری چیزیں درآمد کریں گے تو ہم کیسے صارفین کو کو پاس آن کریں گے؟ لیکن ہم واپس اپنے پوائنٹ پر آتے ہیں کہ کیا ریئل سٹیٹ کے نقصانات ہو سکتے ہیں تو میرا آپ سے ایک سوال ہو گا کہ اگر آپ کی آبادی بڑھ رہی ہے اور یہ ریٹ سب سے زیادہ ہے تو لوگوں نے کہاں جانا ہے کہاں رہیں گے؟ مجھے اس کا کوئی جواب دے دے۔‘
پاکستان میں رہائشی مکانات کی کمی آج بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 10 لاکھ سے زائد مکانات کی مانگ ہے۔ آج سے دو سال پہلے یہ نو لاکھ تھی پھر 10 پر گئی اور اب 11.4 لاکھ پر آچکی ہے۔ یہ کمی ہمسایہ ملک بھارت سے بھی زیادہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ اکثر جمع پونجی ریئل سٹیٹ میں چلی جاتی ہے تو ذیشان علی کا کہنا تھا کہ امیر کلاس ہے، صعنت کار ہیں وہ تو اس میں سرمایہ لگاتے رہیں گے۔
’جب ہم نے یہ کاروبار شروع کیا تھا آج سے تقریباً 14 سال پہلے تو اس میں اور آج کے دن میں اگر میں فرق بتاؤں تو یہ فرق ہے کہ آج یہ ایک انڈسٹری میں بدل چکی ہے جب کوئی چیز انڈسٹری میں بدلتی ہے تو اس میں سارا کچھ آتا ہے۔ تو میرا پیغام یہ ہے کہ اس کو پازیٹو طریقے سے دیکھیں۔ ہم اس کو مل کر بنائیں گے خالی الزام تراشی سے کام نہیں چلے گابلکہ الٹا اس سے نقصان ہو گا۔‘
ان سے پوچھا کہ رئیل سٹیٹ میں بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے زرعی اراضی ہاوسنگ سوسائٹیز کے لیے استعمال ہو رہی ہے جس کی وجہ سے خوراک کی پیداوار کم ہو سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑا عجیب سا سوال ہے کہ ہم ایک مسئلہ کو ٹھیک کرنے کے لیے دوسرا مسئلہ اٹھا دیتے ہیں۔
’رئیل سٹیٹ پرابلم نہیں ہے اگر آپ مجھے کہیں کہ مکانات کی قلت نہیں ہو رہی اور لوگوں کے پاس مکان موجود ہیں؟ چھ سات لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو کیا اس پرابلم کو آپ ٹھیک نہیں کریں گے اور اگر نہیں کریں تو ٹھیک ہے آپ ایگریکلچر ملک بن جائیں اور آپ آبادی نہ بڑھائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلی حکومت ہے جس نے ورٹیکل ڈویلپمنٹ کی طرف توجہ دی ہے۔ کیا آپ کا پورا ملک زراعات پر چل سکتا ہے؟ کیا آپ کا پورا ملک پھل اور سبزیاں اُگا کر برآمد کر کے آپ اپنی اکانومی کو کھڑا کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔‘