جب بطخ میاں انصاری نے مہاتما گاندھی کی جان بچائی

گاندھی کی جان بچانے پر بطخ میاں انصاری کو نہ صرف ملازمت بلکہ اپنے گھر اور گاؤں سے بھی بے دخل ہونا پڑا۔

تین فروری، 1940 موہن داس کرم چند گاندھی الہ آباد میں ورک کانگریس کے صدر کے ساتھ کام کرتے ہوئے ( اے ایف پی فائل فوٹو)

یہ اپریل 1917 کی بات ہے جب موہن داس کرم چند گاندھی نیل (انڈیگو) کی جبری کھیتی سے پریشان غریب کاشت کاروں کو سننے کے لیے بہار کے ضلع چمپارن چلے آئے۔

دراصل انگریزوں نے انگلستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں قدرتی ڈائی بنانے کے لیے نیل کی مانگ میں اضافے اور منافع بخش ہونے کے پیش نظر ہندوستان بالخصوص وسطی بنگال اور شمالی بہار میں اس کی پیداوار بڑھانے میں بڑی دلچسپی لی تھی۔

ان (انگریزوں) کے بنائے ہوئے زمین داری یا دوامی بندوبست اور تین کاٹھیا نظام کے سبب نیل کے کاشت کاروں کی حالت غلاموں جیسی تھی اور اس بیگاری سے وہ بہت تنگ آ چکے تھے۔

زمین داری یا دوامی بندوبست نظام کے تحت کاشتکاروں کو بھاری ٹیکسز ادا کرنے پڑتے تھے جب کہ تین کاٹھیا نظام کے تحت کاشت کاروں کو اپنے کھیتوں کے 20 میں سے تین حصوں میں لازمی طور پر نیل کی کھیتی کرنی پڑتی تھی۔

کاشت کاروں کے برعکس انگریزوں کے لیے نیل کی کاشت کاری ’نیلے سونے‘ کی کاشت اور تجارت جیسی تھی۔

بہار کا ضلع چمپارن نیل کی کاشت کے لیے کافی مشہور تھا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت اس کی کھیتی باڑی سے جڑی تھی۔

تقی رحیم اپنی کتاب ’تحریک آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ‘ میں لکھتے ہیں کہ گاندھی کے پہنچتے ہی چمپارن کے کاشت کاروں کے دلوں سے سارا ڈر نکل گیا اور وہ جھنڈ کے جھنڈ گاندھی جی کے سامنے اپنی مصیبت کی داستان پیش کرنے کے لیے آنے لگے۔

’ہزاروں کی تعداد میں کسان آتے گئے اور اپنے بیانات لکھواتے گئے۔ لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ گاندھی جی بہت بڑے افسر ہیں جن کے سامنے ضلع کے کلکٹر اور مجسٹریٹ کی شکایت بھی کی جا سکتی ہے۔‘

مورخین کے مطابق موہن داس کرم چند گاندھی سے قبل بہار کے علاقہ چاند پور کے رہنے والے شیخ محمد گلاب نے گاؤں گاؤں جا کر انگریزوں کے استحصال کے خلاف تقریریں کی تھیں اور لوگوں کو میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی تھی۔

’ہندوستانی مسلمانوں کا جنگ آزادی میں حصہ‘ نامی کتاب کے مصنف سید ابراہیم فکری لکھتے ہیں کہ سنہ 1907 میں شیخ محمد گلاب نے ایک انگریز پرست کالی چرن تیلی کی نیل کی کوٹھی کا گھیراؤ کیا اور مزدوروں کو کام کرنے سے روک دیا۔

’شیخ گلاب کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انہیں عدالت نے قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس خبر سے سارے چمپارن میں سنسنی پھیل گئی۔ پیر محمد مونس انصاری نے ہندوستان کے اخبارات میں نیل کے مزدوروں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی داستانیں لکھ کر ہندوستانی عوام اور انڈین نیشنل کانگریس کے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔‘

پیر محمد مونس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندی زبان کے صحافی تھے۔ انگریزوں نے انہیں ’بدمعاش پترکار (بدمعاش صحافی)‘ قرار دیا تھا کیوں کہ وہ ان کی پالیسیوں کے خلاف بے باک انداز میں لکھتے تھے۔

گمنام مجاہدین آزادی پر کئی کتابیں لکھنے والے سید نصیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پیر محمد مونس انصاری اور راج کمار شکلا کی مسلسل اپیلوں اور التجاؤں کے بعد ہی گاندھی چمپارن آئے تھے۔‘

’سنہ 1916 میں لکھنؤ میں منعقد ہونے والے کانگریس کے اجلاس میں دونوں (پیر محمد مونس انصاری اور راج کمار شکلا) نے گاندھی جی سے ملاقات کی اور ان سے گزارش کی کہ وہ بذات خود چمپارن آ کر نیل کے کاشت کاروں کی حالت زار دیکھیں۔‘

’چمپارن میں گاندھی جی نے مقامی انتظامیہ کے سخت اعتراض سے قطع نظر ہزاروں کسانوں کو سنا۔ کئی ماہ تک یہاں مقیم رہے۔ تاریخ میں چمپارن تحریک ہندوستان کی تحریک آزادی اور خود گاندھی کے اپنے وطن میں پہلے ستیہ گرہ کے طور پر درج ہے۔‘

بطخ میاں انصاری نے گاندھی کی جان کیسے بچائی؟

سید نصیر احمد کہتے ہیں کہ ’جب چمپارن کے کاشت کاروں نے بغیر کسی خوف و جھجک کے انگریزوں کے ظلم و ستم کی کہانیاں گاندھی کو سنائیں تو انہوں نے اس استحصال کے خلاف تحریک شروع کر دی۔‘

’انگریزوں نے گاندھی جی کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے انتظامیہ اور عدالتوں کو استعمال کیا مگر ان کی تحریک کو روک نہ سکے۔ محکمہ پولیس اور عدالتوں کی مداخلت بھی ان کے کام نہ آ سکی۔

’جب انگریزوں کی گاندھی جی کو چمپارن سے باہر نکالنے کی تمام ترکیبیں ناکام ہوئیں تو نیل فیکٹریوں کے منیجر ڈبلیو ایس ارون نے انہیں زہر دے کر مارنے کا منصوبہ بنا لیا۔

’ارون اپنی کینہ پروری اور بدمعاشی کے لیے مشہور تھے۔ ان کے منصوبے کا خدوخال یہ تھا کہ دعوت کے نام پر گاندھی جی کو اپنے گھر مدعو کر کے دودھ میں زہر ملا کر پلایا جائے۔ انہوں نے اس کام کی انجام دہی کے لیے اپنے باورچی بطخ میاں انصاری کا انتخاب کیا۔

’ارون نے بطخ میاں انصاری کو بلا کر یہ حکم دیا کہ تم گھر دعوت پر آ رہے گاندھی کو دودھ میں زہر ملا کر پیش کرو گے۔ بطخ میاں کے چہرے پر پس و پیش کے آثار دیکھ کر انہوں نے اپنے باورچی کو لالچ دیا اور وعدہ کیا کہ بڑی تنخواہ اور اس کے علاوہ زمین کی شکل میں بڑا انعام بھی دوں گا۔

’یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہوئی یا اس حکم کو نظر انداز کیا تو انتہائی بھیانک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ ارون کے ظالمانہ رویہ سے واقف بطخ میاں انصاری سہم گئے اور کوئی جواب دیے بغیر خاموشی اختیار کی۔

’منصوبے کے مطابق ارون نے گاندھی اور ان کے رفقا کو اپنے گھر دعوت پر مدعو کیا۔ ان کے گھناؤنے منصوبے سے ناواقف گاندھی جی اپنے رفیق راجندر پرساد کے ساتھ ان کے گھر آئے۔‘

’بطخ میاں انصاری کی انوکھی کہانی‘ نامی کتاب کے مرتب کار ایم ڈبلیو انصاری ریاست چھتیس گڑھ کے سابق پولیس سربراہ ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بطخ میاں انصاری کا اصل نام بخت میاں انصاری تھا اور وہ ضلع چمپارن کے ہیڈکوارٹرز موتیہاری کے قریب واقع علاقے سسوا اصغری کے رہنے والے تھے۔‘

’دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی اور بطخ میاں انصاری ہم عمر تھے کیوں کہ دونوں کا سال پیدائش ایک ہی تھا۔ بطخ میاں 25 جون 1869 کو پیدا ہوئے اور چار دسمبر 1957 کو انتقال کر گئے۔‘

’گاندھی جی کو رات کے وقت دودھ پی کر سونے کی عادت تھی۔ بطخ میاں نے دودھ میں زہر تو ملا دیا لیکن ان کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا اور انہوں نے گاندھی جی کو خطرے سے قبل از وقت ہی آگاہ کر دیا۔ ان کی اس ہمت اور بہادری کی وجہ سے گاندھی جی کی جان بچ گئی۔‘

گاندھی کی جان تو بچ گئی لیکن نیل فیکٹریوں کے منیجر ارون نے بطخ میاں انصاری کو نہ صرف ملازمت بلکہ اپنے گھر اور گاؤں سے بھی بے دخل کر دیا۔

سید نصیر احمد اپنی کتاب ’گاندھی جی کی جان بچانے والے بطخ میاں انصاری‘ میں لکھتے ہیں: ’ارون بطخ میاں کی حرکت کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے۔ انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ملازمت سے برخواست کیا، ان کے گھر کو ضبط کر کے نیلام کر دیا، پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروا کے بے انتہا تشدد کا نشانہ بنوایا۔ یہاں تک کہ ارون نے بطخ میاں کو اپنے بال بچوں سمیت اپنے گاؤں سسوا اصغری سے بے دخل کر دیا۔‘

بطخ میاں انصاری فراموش کیوں؟

بھارت میں آج لوگوں کی اکثریت گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے نام سے واقف ہے اور یہاں تک کہ بعض سخت گیر ہندو ان کی حرکت کو صحیح ٹھہرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس آبادی کا عشر عشیر بھی جان بچانے والے بطخ میاں انصاری سے واقف نہیں ہے۔

سید نصیر احمد کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھارت کے پہلے صدر بننے والے ڈاکٹر راجندر پرساد گاندھی کی جان بچانے کے واقعے کے عینی شاہد تھے۔

’راجندر پرساد تب ایک عام سے وکیل تھے اور گاندھی جی کے ساتھ ارون کی دعوت پر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی کتاب چمپارن ستیہ گرہ پر ہی لکھی تھی لیکن اپنی کسی بھی تصنیف میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

’اسی طرح گاندھی جی نے کئی کتابیں اور سینکڑوں خطوط لکھے لیکن کہیں بھی بطخ میاں کے بارے میں نہیں لکھا ہے۔ کیوں نہ لکھا اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے اور نہ میں یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

’ہاں اتنا کہوں گا کہ بطخ میاں انصاری نے اگر اُس دن گاندھی جی کی جان نہ بچائی ہوتی تو گاندھی جی ہندوستان کی تحریک آزادی کے افق پر کبھی مہاتما بن کر ابھرتے نہ کبھی چمپان تحریک چمپارن ستیہ گرہ کہلاتی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب ایم ڈبلیو انصاری سے بطخ میاں انصاری کو بھارتی حکومت اور عوام کی جانب سے مکمل طور پر فراموش کیے جانے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا: ’اول تو وہ مسلمان تھا اور دوم وہ سوکالڈ او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) سے تعلق رکھتا تھا۔

’یہی وجہ ہے کہ گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو آج سب جانتے ہیں لیکن جان بچانے والے بطخ میاں کو کوئی نہیں جانتا۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارت کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ گوڈسے فاشزم نظریہ کے علمبردار تھے۔ وہ ہٹلر اور مسولینی کے مرید تھے۔

’آج کی ہماری حکومت سبھاش چندر بوس کو تو یاد کرتی ہے لیکن جنرل محمد زمان کیانی، جنرل شاہنواز خان اور کیپٹن عباس علی کو کیوں بھول گئی ہے؟ اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔‘

بطخ میاں انصاری راجندر پرساد کے جلسے میں

گو کہ گاندھی کی جان بچانے کے واقعے کے عینی شاہد ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنی کسی بھی کتاب میں بطخ میاں انصاری کے بارے میں نہیں لکھا لیکن اگر انہوں نے سنہ 1950 میں بھارت کے پہلے صدر کی حیثیت سے موتیہاری میں اس واقعے کا خلاصہ نہ کیا ہوتا تو شاید ہی یہ تاریخ میں درج ہوتا۔

مورخ سید نصیر احمد کہتے ہیں: ’سنہ 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد موتیہاری ریلوے سٹیشن پہنچے جہاں انہیں ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ تقریر شروع کی تو ان کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جنہیں پولیس سٹیج کے نزدیک آنے سے روک رہی تھی۔

’ڈاکٹر راجندر پرساد اس بوڑھے شخص، جو بطخ میاں انصاری تھے، کو پہچان گئے۔ پولیس کو اشارہ کیا کہ مذکورہ شخص کو سٹیج پر آنے دیا جائے۔ دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے۔ راجندر پرساد نے بطخ میاں کو اپنی بغل والی کرسی پر بٹھایا۔

’اس منظر کو دیکھ کر جلسے میں موجود تمام لوگ دم بخود رہ گئے۔ شرکا میں چہ می گوئیاں اور کھسر پسر شروع ہو گئی۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ شخص کون ہیں اور صدر صاحب انہیں اتنی عزت کیوں دے رہے ہیں۔

’جلسے میں موجود لوگوں کے تجسس کے جواب میں ڈاکٹر پرساد نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارون نامی انگریز مہاتما گاندھی کو زہر دے کر مارنے کی سازش رچا چکے تھے لیکن یہی وہ شخص ہیں جنہوں نے انگریزوں کو اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ پھر انہوں نے جلسے کے شرکا کو واقعے کی پوری روداد سنائی۔

’بطخ میاں انصاری کی ہمت اور دلیری کی داستان اس طرح پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے آئی۔ اگر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اس واقعے کو اس جلسے میں بیان نہ کیا ہوتا تو شاید ہی دنیا بطخ میاں کو جان پاتی۔‘

ڈاکٹر راجندر پرساد کے اس جلسے کے شرکا میں بھارت کے معروف معاشی مورخ گریش مشرا بھی موجود تھے جن کی عمر تب محض دس سال تھی۔ انہوں نے اپنے کئی مضامین میں بھارت کے پہلے صدر کی بطخ میاں انصاری سے اچانک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔

زمین کی فراہمی کا وہ وعدہ جو کبھی پورا نہ ہوا

سید نصیر احمد کے مطابق انگریز منیجر ارون کے حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں بطخ میاں کو کیسے کیسے مظالم سہنے پڑے ان سب کی تفصیلات انہوں نے ڈاکٹر راجندر پرساد کو دیں۔

’یہ سن کر راجندر پرساد سہم گئے۔ انہوں نے بطخ میاں کے خاندان کے لیے 50 ایکڑ زراعتی زمین الاٹ کرنے کا کلکٹر کو حکم دیا۔ اُس وقت تک انتہائی غریبی میں زندگی بسر کرنے والے بطخ میاں انصاری بہت خوش ہوئے اور سمجھا کہ اب ان کے خاندان کے دن پھرنے والے ہیں اور وہ بہت جلد غربت سے نجات پائیں گے۔

’لیکن یہ خوشی اور مسرت بہت دن تک قائم نہ رہ سکی۔ بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ کے احکامات کی عمل آوری کی امید کرتے ہوئے وہ سات سال تک مسلسل سرکاری دفاتر کے چکر کاٹتے رہے اور بالآخر سنہ 1957 میں انتقال کر گئے۔

’تین دسمبر سنہ 1958 کو صدر ڈاکٹر پرساد نے بطخ میاں کے بال بچوں کو دلی مدعو کیا اور ان کے افراد خانہ کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں۔ ان تصویروں کو بطخ میاں کے بیٹے کافی عرصے تک عوام اور حکام کو دکھاتے رہے۔

’ایک طویل جدوجہد کے بعد بہار کی حکومت نے بطخ میاں کے خاندان کو اپنے آبائی گاؤں سسوا اصغری سے قریب 161 کلو میٹر دور ایکوا پرسونی نامی گاؤں میں محض چھ ایکڑ زمین الاٹ کی۔ زندگی گزارنے کے لیے دوسرا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے انصاری کا خاندان اسی مختصر زمین کو غنیمت جان کر سنہ 1960 میں ایکوا پرسونی منتقل ہوا۔ یہ زمین بھی دریا کے بالکل کنارے ہونے کی وجہ سے زراعت کے لیے مناسب نہیں تھی۔

’بطح میاں انصاری کی تیسری نسل یعنی ان کے پوتے بھی صدر کے احکامات اور ان احکامات کے تناظر میں لکھے جانے والے خطوط سرکاری عہدیداروں اور عوامی نمائندوں کو دکھاتے دکھاتے تھک چکے ہیں۔

’یعنی صدر کے احکامات پر عمل ہونا آج بھی گاندھی جی کی جان بچانے والے بطخ میاں کے خاندان کے لیے تعبیر نہ ہونے والا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔‘

ایم ڈبلیو انصاری کہتے ہیں: ’میں نے بطخ میاں انصاری پر مرتب کردہ اپنی کتاب میں ان کے افراد خانہ کی تصویریں بھی شامل کی ہیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا خاندان آج بھی کتنی غربت کی زندگی گزر بسر کر رہا ہے۔‘

حق کی لڑائی لڑتے رہیں گے

بطخ میاں انصاری کے پوتے چراغ علی انصاری ریاست بہار میں پھلوں کی تجارت سے وابستہ ہیں۔ ان کی عمر 40 سال کے آس پاس ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہم اپنے حق کی لڑائی پچھلے 73 برسوں سے لڑتے آئے ہیں اور آگے بھی لڑتے رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ڈاکٹر راجندر پرساد نے زمین کی فراہمی کے لیے بہار حکومت کو تین خط لکھے۔ پہلا سنہ 1950 میں، دوسرا سنہ 1955 اور تیسرا سنہ 1962 میں۔ انہوں نے ہمارے دادا سے جو وعدہ کیا تھا وہ آج تک وفا نہیں ہوا ہے۔

’پچھلے 73 برسوں کے دوران ہم نے کبھی دھرنا دیا تو کبھی احتجاج کیا۔ سنہ 2001 میں اُس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے بھی بہار کی حکومت کو ایک خط لکھا اور ہمارے حق میں زمین الاٹ کرنے کی سفارش کی۔

’ہم جب عبدالکلام کے خط کے بعد مقامی ضلع مجسٹریٹ سے ملے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ فی الحال میری ترجیح بطخ میاں صاحب کے نام پر کچھ یادگار بنانا ہے۔ انہوں نے موتیہاری میں بطخ میاں انصاری کے نام پر ایک لائبریری بنوائی جس کو ابھی تک چالو ہی نہیں کیا گیا ہے۔

’سنہ 2010 میں اُس وقت کی صدر پرتیبھا پاٹل نے بہار حکومت کو زمین کی فراہمی کے لیے خط لکھا۔ پھر جب 15 نومبر 2016 کو صدر پرنب مکھرجی نے بہار حکومت کو خط لکھا تو پورے ضلعے کو لگا تھا کہ زمین الاٹ کی جائے گی کیوں کہ ہمارے دروازے پر 16 گاڑیوں میں سوار سرکاری عہدیدار آئے تھے۔

’اُس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نے اعلان بھی کیا کہ بطخ میاں انصاری کے خاندان کو زمین دی جائے گی لیکن ہمیں اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ اس کے بعد ہم وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بھی ملے تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین کی فراہمی کا حکم نامہ جلد جاری کریں گے۔‘

چراغ علی انصاری نے بتایا کہ یہ دکھ کی بات ہے کہ مہاتما گاندھی کی جان بچانے والے ہمارے دادا بطخ میاں انصاری کو فراموش کیا گیا ہے۔

’بطخ میاں انصاری سے ریاست بہار میں بھی بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ہم چھتیس گڑھ کے سابق پولیس سربراہ ایم ڈبلیو انصاری کے احسان مند ہیں جنہوں نے بطخ میاں انصاری پر ہزاروں کتابیں چھپوا کر تمام بڑی یونیورسٹیوں کو بھجوا دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا