100 سے زائد سابق افغان اہلکاروں کی ہلاکتوں کا الزام، طالبان کی تردید

اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود اقوام متحدہ کو’جبری گمشدگیوں اور دوسری خلاف ورزیوں‘ کی قابل اعتماد اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے سابق افغان حکومت اور اتحادی ارکان کے جینے کا حق اور جسمانی سالمیت متاثر ہوئے ہیں۔

18 اگست 2021 کو جاری کی گئی یو ایس میرین کور کی تصویر (فائل تصویر: اے ایف پی)

اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل انتونیوگتریس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کو ایسے’قابل اعتماد‘ الزامات موصول ہوئے جن میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سابق افغان حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت بین الاقوامی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک سو سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ نے ان رپورٹس کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ نے عام معافی کے اعلان کے بعد کسی کو نہیں مارا۔ کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں سابقہ فوجی ذاتی دشمنیوں میں مارے گئے ہیں۔ ایسے واقعات کی سخت تحقیق و تفتیش جاری ہے۔ اقوام متحدہ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ مخصوص حلقوں کی معلومات پر انحصار نہ کریں بلکہ زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کریں۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی جانب سے اتوار کو حاصل کی رپورٹ میں انتونیوگتریس نے کہا کہ’دو تہائی سے زیادہ‘ لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں طالبان یا ان سے وابستہ افراد نے ماورائے عدالت قتل کیا۔ حالانکہ طالبان نے سابق افغان حکومت یا امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے’عام معافی‘کا اعلان کر رکھا تھا۔

انتونیوگتریس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کو یہ ’قابل اعتماد الزامات بھی موصول ہوئے جن کے مطابق 50 ایسے افراد کو بھی ہلاک کیا گیا جن پر شبہ تھا کہ ان کا تعلق داعش خراسان کے ساتھ ہے۔ واضح رہے کہ انتہاپسند گروپ داعش خراسان افغانستان میں سرگرم ہے۔‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کو’جبری گمشدگیوں اور دوسری خلاف ورزیوں‘کے قابل اعتماد الزامات بھی موصول ہوئے ہیں جن سے سابق افغان حکومت اور اتحادی ارکان کے جینے کا حق اور جسمانی سالمیت متاثر ہوئے ہیں۔

انتونیوگتریس کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگ ذرائع ابلاغ کے کارکنوں پر’حملے، ڈرانے دھمکانے، ہراساں کرنے، من مانی گرفتاریوں، بدسلوکی اور انہیں ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتونیوگتریس کے مطابق سول سوسائٹی کے آٹھ ارکان کو قتل کیا گیا جن میں سے تین کو طالبان نے اور تین کو داعش نے ہلاک کیا۔ طالبان نے سول سوسائٹی کے 10 ارکان کو عارضی طور پر گرفتار کیا۔ انہیں مارا پیٹا اور دھمکیاں دیں۔ دو صحافیوں کو ہلاک کیا گیا۔ ایک کو داعش نے مارا جب کہ نامعلوم مسلح افراد نے دو صحافیوں کو زخمی کیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ یو این مشنز نے عارضی گرفتاریوں، مارپیٹ اور ڈرانے دھمکانے کے 44 کیسز کو دستاویزی شکل دی ہے۔ 42 کیسز میں طالبان ملوث ہیں۔

انتونیوگتریس کے مطابق ’طالبان کے اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد افغانستان کی صورت حال نازک اور غیریقینی ہے۔ کئی سیاسی، سماجی واقتصادی اور انسانی بحران کے دھچکوں کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آج افغانستان کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے جن میں بگڑتا ہوا انسانی بحران، بڑے پیمانے پر معاشی بدحالی، بنکاری اور مالیاتی نظام کی تباہی، 27 سال میں بدترین خشک سالی، شمولیتی حکومت کے قیام، لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی بحالی اور خواتین کے کام کرنے کے معاملے  میں طالبان کی ناکامی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا