سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے بدھ (دو فروری) کو پاکستان کے اٹھائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کی منظوری سے 17 جنوری کو وزارت قانون کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی یکم فروری کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی دو فروری سے تعیناتی ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دینے کے بعد سپریم کورٹ میں جج تعینات ہوئے اور اب وہ سینیئر ترین جج ہونے کے باعث چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق بطور جج انہوں نے کئی ایسے فیصلے دیے، جن سے آئین وقانون کی بالادستی اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔
ملکی اعلیٰ عدلیہ سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں دس رکنی بینچ کے سربراہ بھی جسٹس عمر عطا بندیال ہی تھے اور قانون کی کتابوں میں مثال بننے والا یہ فیصلہ ان ہی کی سربراہی میں جاری ہوا۔
تین بڑے چیلنج
جسٹس گلزار احمد کی تقرری کے حوالے سے وکلا کے سینیئر رہنماؤں نے نیک تمناؤں اور امیدوں کے ساتھ تین بڑے چیلنجز کا تذکرہ بھی کیا ہے، جن میں سب سے بڑی امید ان سے یہ کی جارہی ہے کہ حسب رویات وہ آئین وقانون کے مطابق فیصلوں سے اعلیٰ عدلیہ پر غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ کا تاثر بھی زائل کریں گے۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی تقرری کو خوش آئند قرار دیا اور بطور سینیئر ترین جج اس عہدے پر ان کی تقرری سے عدالتی نظام میں ان کے موثر کردار کی امید ظاہر کی ہے۔
امجد علی شاہ کے بقول نئے چیف جسٹس کے لیے حلف اٹھاتے ہی تین بڑے چیلنجز بھی ہیں۔ ’پہلا چیلنج عدالتوں میں ہزاروں زیر التوا کیسوں کو نمٹانا، دوسرا، عدالتوں میں ججز کی بڑی تعداد میں موجود کمی کو پورا کرنا اور تیسرا، بار اور بینچ کے درمیان موثر تعلق اور اعتماد کی بحالی ہیں۔‘
امجد شاہ کے مطابق یہ تین ایسے چیلنجز ہیں، جن کے حوالے سے وکلا برداری امید کرتی ہے کہ نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال دور کر سکتے ہیں کیونکہ پہلے بھی وہ مسائل کے حل میں وکلا قیادت کے ساتھ تعاون کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ہزاروں زیر التوا کیسوں کی وجہ سے نہ صرف سائلین بلکہ وکلا بھی مشکلات کا شکار ہیں اور اگر فوری فیصلے کیے جائیں تو التوا کا شکار کیس بروقت نمٹائے جاسکتے ہیں۔
’عدالتوں میں ججز کی کمی سے بروقت انصاف کی فراہمی میں جو دشواریاں ہیں وہ ججز کی خالی آسامیاں پُر کرنے سے دور ہوسکتی ہیں کیونکہ ہائی کورٹس اور مقامی عدالتوں میں بڑی تعداد میں ججز کی سیٹیں خالی ہیں۔‘
سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں منگل کو بات کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اشارہ دیا کہ انہیں ان چیلنجز کا احساس ہے۔ انہوں نے ججز کی ’سکینڈلائزیشن‘ اور بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات کو عدلیہ کو درپیش بڑے مسائل قرار دیا۔
انہوں نے جسٹس گلزار احمد کے دور میں اعلیٰ عدلیہ کو پیش آنے والی مشکلات پر تفصیلی بات کی اور ججز کے فیصلوں پر تنقید کی بجائے ججز پر حملے کرنے پر مین سٹریم اور سوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی 10 ججز نے 17 ماہ تک سماعت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ تقریباً 60 سماعتوں پر محیط تھا اور ایسے دنوں میں بڑے بینچ کی سماعت کے لیے باقاعدہ کاز لسٹ کو کم کرنا پڑتا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس عرصے کے دوران کیسز کا بوجھ دسمبر 2019 کے تقریباً 42,000 کیسز سے بڑھ کر اپریل 2021 میں تقریباً 50,000 کیسز تک پہنچ گیا، تاہم عدالت نے سخت محنت کی اور صحت کے خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض اوقات طویل وقت تک کام کیا۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے مزید کہا: ’بار اور بینچ کے درمیان جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے دوران جو فاصلہ پیدا ہوا ہے، امید کرتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس بہتر انداز میں اسے ختم کر سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ انہیں اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں پر بعض قوتوں کے اثر انداز ہونے کا تاثر ختم کرنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا: ’ابھی وہ عہدہ سنبھال رہے ہیں لہذا وکلا کو ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کے وقار کو بلند کرنے میں اپنا نمایاں کردار ادا کریں گے۔‘
علی احمد کرد کے مطابق ’جس طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعض فیصلوں سے متعلق سوالات اٹھے ہمیں امید ہے کہ نئے چیف جسٹس ایسے تمام شبہات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کے بقول چیف جسٹس کے عہدے پر جسٹس عمر عطابندیال کی تقرری سے بینچ اور بار میں بہتر تعلقات استوار ہوں گے کیونکہ وہ میرٹ پر فیصلے کرنے والے جج ہیں۔
’انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں تقرری کے دوران بھی انسانی مفاد اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے دیے۔ وہ سلجھے ہوئے جج ہیں جو فائل دیکھ کر ہی معاملہ بھانپ لیتے ہیں اور قانون کا ترازو برابر رکھنا جانتے ہیں۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال کے اہم فیصلے
علی احمد کرد کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دس رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال ہی تھے، جن کی سربراہی میں اس کیس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کیا گیا۔ ’یہ کیس یقینی طور پر عدلیہ کی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ تھا، جو اب قانون کی کتابوں کا حصہ بن جائے گا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال کی ہی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف کیس میں چار ایک کے تناسب سے تمام نظرثانی درخواستیں خارج کیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’آئین کا ایک تقدس ہے جس کے تحفظ کی ہم پر ذمہ داری ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے جو آئین اور قانون سے متصادم ہو۔ ملازمین کے مسائل ایک انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے۔ حکومت انسانی پہلو کے حوالے سے جو ریلیف دینا چاہے اسے اختیار ہے، یقینی بنائیں گے کہ کوئی چور دروازے سے سرکاری محکموں میں داخل نہ ہو۔’
اسی طرح ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ بھی جسٹس عمر عطا بندیال تھے، تاہم اس بینچ میں شامل ایک جج نے کیس سننے سے انکار کیا تو یہ کیس چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا دیا گیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کون ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کوہاٹ، راولپنڈی، پشاور اور لاہور کے مختلف سکولوں سےحاصل کی اور لاہور سے ہی بی اے کیا۔
امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری اور اس کے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے لا اور لنکنز اِن لندن سے بیرسٹر ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1983 میں وہ لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر داخل ہوئے تھے اور چند سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ کے طور پر لاہور میں وکالت شروع کی۔
اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال زیادہ تر کمرشل، بینکنگ، ٹیکس اور پراپرٹی کے معاملات نمٹاتے تھے۔ 1993 کے بعد اپنے عہدے پر فائز ہونے تک جسٹس عمر عطا بندیال نے بین الاقوامی تجارتی تنازعات کو بھی سنبھالا۔
وہ ثالثی کے معاملات میں سپریم کورٹ آف پاکستان اور لندن اور پیرس میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونلز کے سامنے بھی پیش ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال چار دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے نومبر 2007 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا لیکن ملک میں عدلیہ اور آئینی حکمرانی کی بحالی کے لیے وکلا اور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجے میں انہیں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے طور پر بحال کر دیا گیا۔
انہوں نے جون 2014 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر اپنی ترقی تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر دو سال خدمات انجام دیں۔
لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے کیریئر کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کئی اہم عوامی قانون اور نجی قانون کے مسائل پر فیصلے سنائے۔ ان میں سول اور تجارتی تنازعات، آئینی حقوق اور مفاد عامہ کے معاملات شامل ہیں۔
انہوں نے 1987 تک پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور میں کنٹریکٹ لا اور ٹارٹس لا پڑھایا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس کی گریجویٹ سٹڈیز کمیٹی کے رکن رہے۔
سپریم کورٹ کے قانون کے مطابق جسٹس عمر عطابندیال 63 سال کی عمر میں دو فروری 2022 سے 16 ستمبر 2023 تک ایک سال چھ ماہ اور 25 دن کے لیے چیف جسٹس رہیں گے۔