اتوار کو انڈیا کے ساتھ کھیلے جانے والے میچ میں وہ سکّے تو نہیں چلیں گے جن میں پاکستان نے آسٹریلیا کو ادائیگی کی، یعنی فخر زمان اور شعیب ملک کا ڈک (0) پر جانا، چار کیچ چھوڑنا، ابتدائی اووروں میں ننگی کمر پہ کوڑوں کی مانند رن مارنے دینا اور جب اپنے ہاتھ دکھانے کی باری آئے تو دو اوور تین گیندوں پر محض 11 رن بنانا اور تڑ پڑ تین وکٹیں گنوانا تو ہر گز بھی نہیں چلے گا۔
انڈیا کے ساتھ جو چلے گا وہ، آسٹریلیا کے ساتھ میچ میں عامر کا 10 اووروں میں صرف 30 رنز دے کر پانچ وکٹیں بٹورنے جیسا تو ہو سکتا ہے، اورآٹھویں وکٹ کی پارٹنر شپ میں 45 رنز بنا کر پاکستان کے اب تک کے ایسے آخری وکٹوں کے اسکور، مثلاً 1983 میں نیوزی لینڈ کے خلاف نویں وکٹ کی پارٹنر شپ میں 41 رن والا عبدالقادر کا اسکور توڑ ریکارڈ بھی خوب چل سکتا ہے لیکن اور بشرطیکہ ہوش، حواس اور تمام اعصاب پر قابو رہے۔
پاکستان کے موجودہ اور کم از کم تین سابق کپتانوں کے تبصروں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آسٹریلیا کے ساتھ میچ والی وکٹ اپنی ہریالی کے باوجود اوسطاً 260 سے زیادہ اور 300 سے کم رنوں کی تھی (لیکن جو ہوا اس پر سینہ کوبی درکار ہے) اور بھائی سرفراز کے ٹاس جیتنے کے بعد آسٹریلیا سے پہلے بیٹنگ کروانے کا فیصلہ بھی درست اور چُست تھا لیکن ابتدائی اوورز میں جو درگت بنی وہ الامان و خدا سے پناہ والی تھی جانے پاکستان کونسی لائن اور لینتھ ڈھونڈتا رہ گیا کہ عامر کو تو فوراً مل گئی انہیں نہ ملی۔
انڈیا کے ساتھ پاکستان کا یہ میچ نہ تو دل لگی والی نیٹ پریکٹس ہے اور نا ہی خانہ پُری والی کوئی دو طرفہ سیریز ہے۔ آسٹریلیا سے دو دو ہاتھ ہونے سے قبل، خواہ انضمام الحق کی یہ ہدایت کہ مورال بلند کرنے کے لیے ’بڑی ٹیموں کو ہرانا ضروری ہے‘ اور بھائی سرفراز کی یہ جھینپتی نصیحت کہ ’پاکستان مزید کسی کوتاہی کا متحمل نہیں ہوسکتا‘ جانے کہاں واش آؤٹ ہو گئی تھیں کہ امام الحق 75 گیندوں پر 53 رنز سے آگے نہ بڑھے اورخود آخری امید بننے والے بھائی سرفراز بھی جلد بازی میں ایک ہرجائی بال سے پینگیں لڑا بیٹھے، ظاہر ہے کہ مارے گئے۔
اس ورلڈ کپ کی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ ایک اننگز میں 400 یا اس سے زیادہ اسکور پار کر جانے والے سکور کارڈز چھپوائے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تک کوئی ایسا کمر توڑ سکور یا ریکا ڈ نہیں بنا سکا لیکن سیانے تو یہ بھی کہ چکے ہیں نا کہ ریکارڈ تو بنتے ہی ہیں ٹوٹنے کے لیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بریڈ فورڈ اور برمنگھم کے بعد وسطی انگلینڈ کے تیسرے ’لٹل انڈیا و پاکستان‘ کہلائے جانے والے شہر مانچسٹر میں اتوار کو ہونے والا یہ ورلڈ کپ مقابلہ 1999 کے بعد ان دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا مقابلہ ہے۔
اُس میچ میں انڈیا نے پاکستان کو 47 رنز سے ہرایا تھا، خیر وہ تو اُس سمے تھا لیکن اس سمے کے نکشتروں (سیاروں ستاروں) اور زائچوں کے تیور اس لیے مختلف ہیں کہ انڈیا کی طرف سے شکھر دھون اور روہت شرما کی اوپننگ جوڑی کے بننے کے امکانات ڈانواں ڈول ہیں۔
لیفٹ ہینڈ بولرز سے خاصہ گھبرانے اور ابتدائی تین اووروں میں اندر گھس کر منہ دیکھنے والی بالوں سے پریشان ہونے والے روہت کے ستارے پنڈتوں کے انوسار لگتا ہے سمر ہالی ڈیز پر ابھی ابھی نکلے ہیں۔
انڈیا کے یوسوندرا چہل اور پاکستان کے شاداب خان دنیا کے بہترین سپن بولرز میں شامل ہیں لیکن اگر چہل نے اس ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی کمر توڑی تو پاکستان کے شاداب نے انگلینڈ کی بساط لپیٹی ہے۔
پاکستان کے فخر زمان اور امام الحق اب تک پانچ نصف سینچریوں اور چار سینچریوں کے شراکت دار ہیں، انڈین جوتشیوں کے بقول ان کی گڈّی چڑھا چاہتی ہے لیکن انہی کے بقول اگر فخر کو آف سٹمپ کے باہر بال کراؤ تو دانہ چُگتے مارا جائے گا اور امام صاحب لیگ سٹمپ کے باہر شارٹ پچ گیندوں کی زد میں ایک بار پھر آسکتے ہیں لہذا دونوں کو ہی بڑے امام صاحب کے چرڑن چمبن (قدم بوسی) اور امام ضامن کی ضرورت ہے۔
انڈیا کے بعض صحافی اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستانیوں کے رزمیہ (جنگی) نغمے بھی ہمیں کھولا دیتے ہیں اور اگر چڑھ جائے انہیں تو کھیلتے بھی یہ لوگ چڑھ کے ہیں لیکن پھر دوستی کا بگھار لگانےاور تجزیاتی توازن برقرار رکھنےکے لیے ماضی کی اجارہ داری والی ہاکی اور سکواش کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ایشیز سیریز میں بھی وہ جوش و ولولہ نہیں جو ’ان‘ کے ساتھ کھیلنے میں ہے اور خواہ ہم نہ نہ کریں لیکن ’لُڈّی‘ ڈالنے کا مزہ بھی ان ہی کے ساتھ آتا ہے لیکن مجھے سرحد پار سے آیا یہ کمنٹ بہت بھایا کہ ’پاکستان بھی عجیب ہے، یہ جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھ کے لڑتا ہے‘۔
تبصرہ کی تصدیق یا تردید کے لیے بس اتوار ہی تو ہے۔