’یار اس بار وہ مزہ نہیں تھا جو پچھلی مرتبہ آیا۔‘
کئی دفعہ ہم کسی شہر سے گزرتے ہیں تو سڑک کنارے کہیں رک کے کھانا وغیرہ کھا لیتے ہیں۔ وہ بہت لذیذ لگتا ہے۔
اگلی مرتبہ عین اسی جگہ جا کر وہی سب کچھ کھاتے ہیں تو سُوا مزہ نہیں آتا۔ ایک پرسنٹ جو لگے کہ یار وہی کھانا ہے جسے پچھلی بار کُٹ کے کھایا تھا اور اسی لالچ میں دوبارہ یہاں تک آ بھی گئے۔
کوئی مکان ہے، فرض کریں نانا کا گھر ہے، آپ کا وہاں بچپن گزرا، کونے کونے سے آپ کو انسیت ہے، تو جب وہاں نانا موجود نہ رہیں، کیا وہ گھر ویسا ہی پیارا لگے گا آپ کو؟
ان دونوں سے ملتا جلتا معاملہ لمس کا ہے۔ ایک انسان کا ٹچ دوسرے سے الگ ہوتا ہے، دوسرے کا تیسرے سے اور علی ہذا القیاس۔
اب ان تینوں چیزوں کے درمیان مشترک بات جو ہے، وہ چند لمحے ہیں۔
آپ جب کہیں دوبارہ کھانا کھانے جاتے ہیں، یا کسی جگہ کو پھر سے دیکھنا چاہتے ہیں، یا کسی شخص کی طرف لوٹتے ہیں تو آپ اصل میں ان گذرے لمحوں کو ڈھونڈنے واپس پلٹتے ہیں۔
لاکھ کہتے پھریں کہ جانے والے کسی بندے (یا بندی) کی کمی اورکوئی پوری کر دے گا تو یہ ناممکن ہے۔ وہ خانہ خالی رہے گا۔
ہاں نیا خانہ بن جائے اور پھیلتے پھیلتے پچھلے کو دبا دے، یہ شاید کبھی ہوتا ہو لیکن جسم کے میموری سیل بڑے ظالم ہوتے ہیں، آپ کی یادداشت چلے نہ چلے انہوں نے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔
جسم کی اپنی ایک ہارڈ ڈسک ہوتی ہے جس میں وہ صرف لمس کی یاد محفوظ رکھتا ہے۔ تو وہ یاد میموری سیل کی شکل میں سٹور رہتی ہے۔
کچھ سائنس دان کہتے ہیں کہ جسم کا ہر حصہ، ایک ایک خلیہ اپنی الگ یادداشت محفوظ رکھ سکتا ہے اور کچھ اس بات کو نہیں مانتے۔
آپ وہ مان لیں جو آپ کا دل کہتا ہے لیکن اب واپس چلیں۔ وہ جو پچھلی مرتبہ سڑک کنارے کھانا کھایا تھا اس وقت موسم کیسا تھا، ٹائم کیا تھا، فرصت کتنی تھی، دھیان کہاں تھا، موڈ بہتر تھا یا سڑا ہوا، ساتھ کون تھا، کوئی دوا لی تھی یا نارمل تھے ۔۔۔ اس کے علاوہ پچھتر چیزیں ایسی تھیں جن سے مل کے وہ ذائقہ بنا تھا۔
دوبارہ آپ کھانے چلے گئے لیکن ان میں سے کوئی ایک چیز بھی شارٹ ہے تو بس چھٹی ۔۔۔ مگر یہ واردات سمجھ نہیں آتی۔
انسان بڑا کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ ہے! شدید والا! کبھی تو بڑی سے بڑی آندھی گزار جائے اور کبھی ایک پھونک جڑوں سے اکھاڑ دے۔
وجہ پوچھیں تو کوئی نہیں، گننے بیٹھیں تو ایک ہزار، لیکن ہر انسان پہ وہی فارمولا لگ جائے، یہ بھی ناممکن!
نانا کے گھر کی بات اس لیے کی کہ عام طور پہ بچپن میں آپ دادا کے یہاں رہتے ہیں۔ نانا کے وہاں روز جانا ممکن نہیں ہوتا لیکن جتنا بھی جانا ہوتا ہے، اس گھر میں کوئی لمحہ بہرحال قید رہ جاتا ہے۔
اب خدانخواستہ نانا دنیا میں نہیں رہے تو اس گھر میں کیوں دل نہیں لگتا؟ باقی تو لوگ وہی ہیں اور جگہ بھی وہی؟
آپ وہاں لمحے کی، لمس کی تلاش میں جاتے ہیں، مکان تو وہی ہے، زماں وہ نہیں ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وقت جو اس ٹائم تھا، اب وہ نہیں ہے۔
تو ماضی والا سب کچھ حال میں رہتے ہوئے واپس جانے پر بھی ویسا نہیں ملتا، یہ طے ہو گیا۔
لمحے، ذائقے اور لمس محفوظ بنانے ہیں تو فنا فی الوقت ہو جائیں۔ جو وقت ایک چیز کا ہے اس میں دوسرا کام کوئی نہ ہو۔ موبائل نہ ہو، ٹی وی نہ ہو، دماغ پہ بوجھ نہ ہو یا جسے ہم ملٹی ٹاسکنگ کہتے ہیں، وہ تو شدید والی نہ ہو!
گورے اسے ’ٹو لو ان دا مومنٹ‘ کہتے ہیں، آپ جو بھی نام دیں لیکن مومنٹ، وہ لمحہ، وہ ذائقہ، وہ لمس محفوظ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ دل جان سے واحد ایک کام کر رہے ہوں، وہ کام، جو آپ کی ترجیح ہے!
اور ہاں، ایسے وقتوں میں تصویریں کھینچنے کی بجائے مووی بنا لیں۔ تصویر اداس کرتی ہے، سبجیکٹ بے جان لگتا ہے، مووی وہ پورا لمحہ کسی حد تک واپس آپ کے سامنے زندہ کر دیتی ہے۔
جتنا وقت تصویر کے لیے ٹھیک جگہ ڈھونڈنے میں ضائع ہوتا ہے اس سے آدھے ٹائم میں ویڈیو بن جاتی ہے۔
تصویر شاید سوشل میڈیا پہ زیادہ لائکس دلا دیتی ہو لیکن جو چیز آپ کے دل سے قریب ہو گی، وہ مووی ہے، لمحوں کی ممکنہ پکڑ! اگلی مرتبہ کوشش کیجے، مزا آئے گا!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب رہ گئی معافی ۔۔۔ معافی اور وقت کا بڑا ظالم تعلق ہے، جس سے آپ نے کوئی زیادتی کی، ہو سکتا ہے اب سے پانچ سال بعد اس کے لیے وہ بات کوئی مسئلہ ہی نہ ہو، لیکن آپ کا احساس جرم گزرتے وقت کے بڑھتا جائے گا۔
آپ پانچ سال بعد معافی مانگیں گے، وہ بندہ کر بھی دے گا معاف پر اب اس کے لیے یہ سب بے معنی ہے۔
یہ ایک احساس بھی آپ کو شرمندگی میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔ معافی کا وقت پانچ سال پہلے تھا، نہ آپ اس وقت میں واپس جا سکتے ہیں اور نہ اب والی معافی وہ اہمیت رکھتی ہے جو پانچ برس پہلے رکھتی تھی۔
معافی اڑتے پرفیوم جیسی ہے، دیر کریں گے مانگنے میں تو واقعے کی اہمیت اس بندے کے نزدیک ختم ہو جائے گی۔
خوشبو اڑ گئی تو پرفیوم کا اب کیا کرنا ہے؟ اور باسی معافی پر آپ خود مطمئن ہو جائیں گے؟