شمالی مراکش میں پانچ دن سے کنویں میں گرے ایک بچے کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں ہفتے کو اس وقت روک دی گئیں جب امدادی کارکنوں نے کنویں کی تہہ میں اسے مردہ پایا۔
اس سے اسے بچانے کی پانچ روز سے کی جانے والی کارروائی کا افسوسناک اختتام ہوگیا ہے۔
شاہی عدالت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس افسوسناک حادثے کے بعد جس میں کنویں میں گرنے والے لڑکے ریان اورم کی جان گئی، شاہ محمد ششم نے اس کے والدین کو فون کیا۔
امدادی کارکن احتیاط سے کام لیتے ہوئے ان پانچ دنوں میں پتھر نکالنے میں مصروف رہے۔ امدادی آپریشن کے دوران مٹی کے تودے گرنے کا مسلسل خطرہ تھا جس کی وجہ سے صورت حال خطرناک تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امدادی کارکن کنویں میں گرے پانچ سالہ بچے کو نکالنے کی خاطر مشینوں کی مدد سے کھدائی میں مصروف رہے۔
بچہ جس کی ریان کے نام سے شناخت ہوئی ہے منگل کو شفشاون کے قریب پہاڑیوں میں بنے سو فٹ گہرے کنویں میں گر گیا تھا۔
موقعے پر موجود بچے کے والد کے بقول: ’وہ لوگ جو ہم سے پیار کرتے ہیں وہ میرے بچے کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔‘
بچے کے والد یہ بات کرتے ہوئے تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور ان کی آواز سننا مشکل تھا۔ وہ جمعے کی رات سے امدادی کارروائیاں دیکھنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے سردی سے بچنے کے لیے ہڈ والا روائتی اونی لباس پہن رکھا تھا۔
مراکش کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچہ کنویں کی تہہ میں پھنسا ہوا ہے۔ کنویں کے بالائی حصے کی چوڑائی 45 سینٹی میٹر ہے لیکن نیچے جاتے ہوئے اس کی چوڑائی کم ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے امدادی کارکن کنویں کے اندر نہیں اتر سکتے۔
بچے کو کنویں سے نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں جب کہ قریب ہی موجود سینکڑوں دیہاتی خبر سننے کے منتظر ہیں۔
امدادی کارکنوں نے کنویں کے قریب ہی ایک اور گڑھا کھودا ہے۔ سر پر ہیلمٹ پہنے کارکنوں نے چمکدار جیکٹیں پہن رکھیں ہیں جبکہ ان کے پاس سٹریچرز، رسے، چرخیاں اور دوسرا سامان بھی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امدادی کارکنوں نے بچے تک پہنچنے کے لیے جمعے کو بڑی احتیاط کے ساتھ افقی سرنگ کھودنے کا کام شروع کیا تھا۔ بعض اوقات انہیں زمین مضبوط بنانے کی ہدایت کی گئی۔ ایک عینی شاہد کے مطابق سرنگ اور کنویں کے درمیان کھدائی کرتے ہوئے راستے میں آنے والی چٹانوں نے ان کا کام مزید مشکل بنا دیا۔
امدادی کارکن ریان تک پہنچ کر اسے بحفاظت باہر نکالنے کے لیے افقی سرنگ میں کنکریٹ کے پائپ رکھ رہے ہیں۔
ریان کے رشتہ دار نے روئٹرز ٹی وی کو بتایا کہ خاندان کو بچے کی گمشدگی کا پہلی بار اس وقت پتہ چلاجب انہیں رونے کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی۔ گھر کے لوگوں نے موبائل فون کی لائٹ جلا کر اور کیمرہ آن کر کے اسے کنویں میں لٹکایا تا کہ بچے کا پتہ لگایا جا سکے۔ رشتہ دار کا کہنا تھا کہ’وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مجھے باہر نکالو۔‘
شفشاون کے پہاڑی علاقے میں موسم سرما میں شدید سردی پڑتی ہے۔ اگرچہ کنویں میں گرے ریان کو کھانے کی چیزیں دی گئی ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا اس نے ان میں سے کچھ کھایا یا نہیں۔ ٹیوب کو استعمال میں لاتے ہوئے بچے کو پانی اور آکسیجن بھی فراہم کی گئی ہے۔