چینی فیکٹریاں ٹک ٹاک پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار کر رہی ہیں جن میں امریکیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھاری محصولات کم کرنے کے لیے ان سے براہ راست خریداری کریں۔
حالیہ دنوں میں درجنوں ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں خریداروں کو چین کی ان فیکٹریوں سے خریدنے کا کہا جا رہا ہے جو لولومن اور لوئی ویٹوں جیسے بڑے برانڈز کے لیے سامان تیار کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور وہ بھی انتہائی کم قیمت پر۔
ایک ویڈیو جسے تقریبا ایک کروڑ بار دیکھا جا چکا ہے، میں ایک تخلیق کار کا دعویٰ ہے کہ وہ اسی مینوفیکچرر کی یوگا پتلون پانچ سے چھ ڈالر میں دے سکتا ہے جو لولومین کو سپلائی دیتا ہے اور وہ امریکہ میں 100 ڈالر میں فروخت کرتے ہیں۔
وہ بظاہر ایک فیکٹری کے سامنے کھڑے ہو کر کہتی ہیں: ’مواد اور دستکاری بنیادی طور پر ایک ہی ہیں کیوں کہ ان کی پروڈکشن لائن ایک ہی ہے۔‘
ایک اور ویڈیو میں ایک فیکٹری کے فرش پر کھڑے ایک شخص کا دعویٰ ہے کہ اسے لوئی ویٹوں بیگ تیار کرنے والے مینوفیکچررز تک رسائی حاصل ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ براہ راست گاہکوں کو 50 ڈالر میں فروخت کر سکتے ہیں۔
لیکن دونوں کمپنیاں اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات چین میں تیار ہوتی ہیں، اور ماہرین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ ویڈیوز ممکنہ طور پر جعلی یا ’دھوکہ دینے‘ والے مینوفیکچررز کی جانب سے اپنی کی فروخت بڑھانے کے لیے ٹیرف کے حوالے سے افراتفری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ہیں۔
پرتعیش اشیا کی صنعت کے بارے میں ایک نیوز لیٹر ڈارک لگژری کے مصنف کونراڈ کولٹی ہارپر نے کہا، ’وہ چین میں جعلی مینوفیکچررز کو حقیقی مینوفیکچررز کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’وہ اپنے سوشل میڈیا کے معاملے بہت ہوشیار ہیں، اور وہ مغرب میں طلب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
لوئی ویٹوں نے بار بار کہا ہے کہ وہ چین میں مصنوعات تیار نہیں کرتا ہے ، اور دی انڈیپنڈنٹ کو کم از کم ایک ویڈیو ملی ہے جس میں لولومن سپلائر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔
لولومن کے ایک ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ مین لینڈ چین میں اپنے تیار شدہ سامان کا تقریباً تین فیصد تیار کرتا ہے، اور اپنی ویب سائٹ پر اپنے مینوفیکچرنگ شراکت داروں کی مکمل فہرست فراہم کرتا ہے۔
ٹک ٹاک صارفین نے حالیہ دنوں میں ان ویڈیوز کو اپنی فیڈز میں دیکھنے کی اطلاع دی ہے کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے۔
ٹرمپ نے عالمی محصولات کے نظام کے حصے کے طور پر چین سے آنے والی تمام مصنوعات پر 145 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا، لیکن ان کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ سمارٹ فونز اور کچھ دیگر الیکٹرانکس آلات کو استثنیٰ دیا جائے گا۔
اس کے جواب میں چین نے امریکی درآمدات پر 125 فیصد محصولات عائد کیے۔
ان میں سے زیادہ تر ویڈیوز انفلوئنسرز کی جانب سے تیار کردہ اشتہارات ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مینوفیکچررز کی جانب سے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
دیگر کم بجٹ سے بنائی ویڈیوز ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ فیکٹری کے فرش پر یا گودام میں بنائی گئی ہیں۔ زیادہ تر مینوفیکچرر کی ویب سائٹ کے لنکس اور خریدنے کے طریقے کے بارے میں ہدایات فراہم کرتی ہیں۔
کچھ تخلیق کاروں نے چین پر عائد امریکی محصولات کے خلاف دلائل دیتے ہوئے ویڈیوز بھی تیار کی ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھتی ہوئی سرگرمی محصولات کا جواب ہوسکتی ہے۔ چین سے 800 ڈالر سے کم کی درآمدات کو پہلے محصولات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن یہ استثنیٰ دو مئی کو ختم ہو جائے گا۔
اس کے باوجود امریکی ٹک ٹاک صارفین کی ایک چھوٹی سی تعداد نے پرتعیش اشیا کی صنعت کے پوشیدہ پہلو کو ظاہر کرنے اور امریکی کمپنیوں کو ختم کرکے محصولات میں کمی کرنے پر ان ویڈیوز کا خیرمقدم کیا۔
چین میں جعلی مارکیٹ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ امریکی کسٹمز نے 2023 میں تجویز کردہ خوردہ قیمت میں تقریباً 1.8 ارب ڈالر مالیت کی جعلی اشیا ضبط کیں۔
کوئلٹی ہارپر نے کہا کہ چین میں جعلی صنعت برسوں سے مغربی کمپنیوں کے لیے تشویش کا باعث رہی ہے۔ اور اندرونی طور پر ٹریڈ مارک اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کا نفاذ جغرافیائی سیاسی ماحول پر منحصر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں چینی حکام اس معاملے میں سخت رہے ہیں اور بعض اوقات وہ اس معاملے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور اکثر اس کا تعلق امریکہ اور سابق صدور کے ساتھ تعلقات سے ہوتا ہے۔‘
یہ امریکہ اور چین کے درمیان انٹلیکچوئل ملکیت کے معاملے پر ایک بڑی جغرافیائی سیاسی جنگ کا حصہ ہے۔ اور ان بہت زیادہ ٹریفک والی ٹک ٹاک ویڈیوز پر اس طرح کی پروپیگنڈا لڑائی دیکھنا دلچسپ ہے۔‘
© The Independent