بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایک آن لائن نیوز پورٹل دا کشمیر والا کے ادارتی بورڈ نے تصدیق کی ہے کہ ان کے بانی ایڈیٹر فہد شاہ کو ریاست کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات پر بھارتی پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
فہد شاہ کی گرفتاری یوم یکجہتی کشمیر سے ایک روز قبل عمل میں لائی گئی۔ ابتدائی طور پر دس روز کے لیے پولیس انہیں اپنی تحویل میں رکھی گی جس میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ ’فہد شاہ کی شناخت ان فیس بک صارفین میں ہوئی ہے جو مجرمانہ نیت سے ریاست مخالف مواد چھاپ کر عوام کو نقص امن پر ابھار رہے تھے۔‘
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے مواد کا مقصد دہشت گردی کو بڑھاوا دینا تھا۔‘
کشمیر کے آن لائن نیوز پورٹل دا کشمیر والا کے ادارتی بورڈ کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فہد کو ایک جاری تفتیش میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اسی دوران انہیں گرفتار کیا گیا۔ اس تفتیش کا آغاز دا کشمیر والا کی جانب سے 29 جنوری 2020 کو جنوبی کشمیر میں گولی چلنے کے ایک واقعے کی خبر چھاپنے کے بعد ہوا تھا۔
جس کے دو دن بعد 31 جنوری 2020 کو فہد شاہ پہلی مرتبہ تفتیش کے لیے بلائے گئے اور تب سے گرفتاری تک انہوں نے تفتیش میں مکمل تعاون کیا تھا۔‘
دا کشمیر والا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’33 سالہ فہد شاہ نے اس آن لائن پورٹل کی بنیاد 2009 میں رکھی تھی۔ انہیں ریاست کے خلاف بغاوت اور انسداد دہشت گردی جیسی دفعات کا سامنا ہے۔ اگر یہ الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں عمر قید ہو سکتی ہے۔‘
اے پی کے مطابق دا کشمیر والا نے مذکورہ واقعے میں ملوث تمام اطراف پر رپورٹنگ کی تھی۔ ایک ویڈیو رپورٹ میں خاندان کے کچھ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ پولیس کے موقف کی مخالفت کر رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو مرنے والے لڑکے کی بہن کی ہے جس میں وہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کی جانب سے دیے گئے پہلے بیان کو جھٹلا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں جب دا کشمیر والا سےجڑے صحافیوں کو پولیس نے تفتیش کے لیے بلایا ہو بلکہ گذشتہ چند سالوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے۔
اے پی نے رپورٹ کیا ہے کہ گذشتہ ماہ بھی پولیس نے ایک کشمیری صحافی سجاد گُل کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر ایک ویڈیو ٹویٹ کرنے کا الزام تھا جس میں ایک مبینہ عسکریت پسند کے موت کے بعد بھارت کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔
امریکی خبر رساں ادارے نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ گذشتہ ماہ ہی چند صحافیوں کی حمایت سے بھارتی حکومت نے مسلح پولیس کے ذریعے وادی کشمیر کا واحد آزاد پریس کلب بھی بند کر دیا تھا۔