وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب سے جمعے کی رات ایک تقریب میں معروف ٹی وی اینکر سمیع ابراہیم کو تھپڑ مارنے کے خلاف صحافی تنظیموں نے لاہور پریس کلب میں احتجاج کیا۔
مظاہرین نے فواد چوہدری اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے انہیں وزارت سے ہٹا کر پارٹی سے نکالنے اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ایک وفاقی وزیر کی جانب سے صحافی کو تھپڑ کے معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے، جبکہ خود فواد چوہدری نے واقعے کی خود تصدیق کرتے ہوئے اسے بلیک میلنگ کانتیجہ قراردیا۔
اس معاملے پر کئی وزرانے مذمت کی تو بعض نے فواد چوہدری کی حمایت میں بیانات دیے۔ اب تک وزیر اعظم ہاؤس نے اس بارے میں کوئی ردعمل جاری نہیں کیا۔
واقعہ کیسے پیش آیا
فیصل آباد میں جمعے کو نجی نیوز چینل 92 کے مالک میاں حنیف کی بیٹی کی شادی تھی ، تقریب میں ملک بھر کے صحافی اور سیاسی شخصیات بھی شریک ہوئیں۔ تقریب میں موجود صدر پریس کلب لاہور ارشد انصاری نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریب کے دوران سمیع ابراہیم جس میز پر موجود تھے، وہاں وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان، صمصام بخاری، اینکرمعید پیرزادہ، ارشد شریف، آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن ودیگر بھی بیٹھے تھے۔
فواد چوہدری اچانک اندر آئے اور اسی ٹیبل کی طرف بڑھے اور ان سے گلے ملنے کے لیے سب کھڑے ہو گئے۔
ارشد انصاری کے مطابق فواد چوہدری سیدھے سمیع ابراہیم کی طرف بڑھے اور گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اس سے پہلے کہ سمیع ابراہیم کوئی ردعمل دیتے انہوں نے زور دار تھپڑ مارا اور کسی سے ملے بغیر دھمکیاں دیتے ہوئے واپس چلے گئے۔
سمیع ابراہیم نے ردعمل میں کہا کہ یہ زیادتی ہے اور اختلاف کا مطلب تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ تقریب کے میزبان نے سمیع ابراہیم سے واقعے پر معذرت کی۔ سمیع ابراہیم نے کچھ دیر بعد متعلقہ تھانہ منصورآباد فیصل آباد میں اندراج مقدمے کی درخواست دے دی۔
’بلیک میلنگ پر تھپڑ مارا‘
فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے سرکاری اشتہارات کو سٹریم لائن کیا اور ریٹنگز کے مطابق A,B, C اور D درجے بنائے۔
’اس تبدیلی سے حکومتی اشتہارات کے اخراجات میں 70 فیصد کمی آئی، اب چینلز میں دوڑ تھی کہ ہمیں کیٹیگری اے میں رکھیں۔ سمیع ابراہیم نے مجھے کہا کہ ان کے چینل کو بی کیٹیگری سے نکال کر اے درجہ دیں تاکہ اشتہارات کا ریٹ زیادہ ملے، ساتھ ہی ریٹ فوری طور پر دو کروڑ روپے کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں مذکورہ ٹی وی چینل کو اے کیٹیگری دیتا تو باقی سب چینلز کو بھی دینی پڑتی اور سارا عمل ہی ختم ہو جاتا۔’ میرے انکار کے بعد میرے خلاف ایک مستقل مہم شروع کر دی گئی، اسی دوران مذکور ہ نیوز چینل کے ایک کیمرا مین کی مجھے درخواست آئی کہ ٹی وی چینل ان کے واجبات ادا نہیں کر رہا، اس پر میں نے پیمرا کو کہا کہ اس معاملے پر غور کریں ‘۔
’اس کے بعد سمیع ابراہیم نے میرے خلاف ٹی وی پر اپنے شو میں یکطرفہ مہم شروع کر دی۔ روزانہ ہی مجھے ایجنٹ ڈیکلیئر کیا جانے لگا، ہر معاملے کی کوئی حد ہوتی ہے ،میں نے ہر جگہ درخواستیں دیں، لیکن کوئی اثر نہ ہوا‘۔
فواد نے دعویٰ کیا کہ جب شادی کی تقریب میں ان کا سمیع ابراہیم سے آمنا سامنا ہوا تو وہ پھر میرے خلاف بولنے کی کوشش کرنے لگے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔
فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ سمیع ابراہیم انہیں بلیک میل کر رہے تھے اور اگر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا تو وہ بھی مبینہ بلیک میلنگ پر قانونی کارروائی کریں گے۔
’فواد چوہدری نشے میں تھے‘
مذکورہ ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو افسر اوراینکر سمیع ابراہیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے فواد چوہدری کے خلاف عوام کو اپنے ٹی وی شوز میں حقائق سےآگاہ کیا، جس پر انہیں ٹوئٹر اکاؤنٹ سے گالیاں دی گئیں۔
انہوں نے فواد چوہدری کے دعوؤں کو غلط قرار دیتے ہوئے بلیک میلنگ کی تردید کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تقریب میں جب فواد نے ان سے بدتمیزی کی تو وہ نشے میں دھت تھے اور تقریب میں بدنظمی سے بچنے کے لیے انہوں نے ردعمل کا اظہارنہیں کیا۔
ایس ایچ او تھانہ منصورآباد شیخ شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ سمیع ابراہیم نے اندراج مقدمہ کی درخواست دی ہے لیکن ابھی تک شواہد دیکھ رہے ہیں ،اگر کوئی فوٹیج یا ثبوت ملے گا تومقدمہ درج کرنے کا سوچیں گے ۔