بھارتی ریاست کرناٹک میں حجاب پہننے والی ایک طالبہ کو تعلیمی ادارے میں ہراسانی کا نشانہ بنانے اور اس کے جواب میں طالبہ کا ’بہادری‘ سے ’اللہ اکبر‘ کا جوابی نعرہ لگانے پر جہاں ایک جانب طالبہ کو داد و تحسین سے نوازا جا رہا ہے وہیں بھارت میں بڑھتے عدم برداشت کے کلچر پر تنقید کی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے مطابق کرناٹک کے ایک کالج میں باحجاب طالبہ کو پہلے کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا مگر جب وہ کالج میں داخل ہوئیں تو زعفرانی مفلر اوڑھے طلبہ کے ایک گروہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔
اس کے جواب میں مسکان نامی طالبہ نے خوفزدہ ہونے کے بجائے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا کر مشتعل ہجوم کو جواب دیا۔
اس سارے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے سوشل میڈیا صارفین اس پر تبصرے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران ریاست کرناٹک میں طالبات حجاب پر عائد پابندی واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس ویڈیو کی وجہ سے یہ موضوع سوشل میڈیا تک آ گیا ہے جہاں اب بڑے پیمانے پر اس حوالے سے بات ہو رہی ہے۔
اس وقت پاکستان میں بھی ’مسکان‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جہاں صارفین کی جانب سے مسکان کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جن میں کئی جگہوں پر انہیں ’شیرنی‘ کے طور پر دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ویڈیو وائرل ہونے پر پاکستانی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سمیت کئی شخصیات نے خواتین کو لباس کی بنیاد پر تعلیم کے حق سے محروم کرنے کی کوشش اور ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائی۔
ملالہ یوسفزئی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’لڑکیوں کو حجاب کے ساتھ سکول جانے سے روکنا خوفناک ہے۔ کم یا زیادہ پہننے پر خواتین کے ساتھ مصنوعات جیسا برتاؤ اب بھی جاری ہے۔ بھارتی رہنماؤں کو مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکنا ہو گا۔‘
“College is forcing us to choose between studies and the hijab”.
— Malala (@Malala) February 8, 2022
Refusing to let girls go to school in their hijabs is horrifying. Objectification of women persists — for wearing less or more. Indian leaders must stop the marginalisation of Muslim women. https://t.co/UGfuLWAR8I
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی اس حوالے سے ایک ٹویٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو #ModiEndia میں ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے۔ بھارتی معاشرہ غیرمستحکم قیادت کی وجہ سے تیزی سے گر رہا ہے۔ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہے جیسا کہ کوئی بھی لباس جس کے لیے شہریوں کو اجازت دی جانی چاہیے۔‘
What’s going on in #ModiEndia is terrifying, Indian Society is declining with super speed under unstable leadership. Wearing #Hujab is a personal choice just as any other dress citizens must be given free choice #AllahHuAkbar
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 8, 2022
مشال حسین ملک نے لکھا کہ ’ہر عمل کا برابر ردعمل ہوتا ہے! اپنے یقین کے ساتھ ثابت قدم رہیں چاہے آپ کو تنہا ہی کھڑے ہونا پڑے۔‘
Every Action has an equal Reaction!
— Mushaal Hussein Mullick (@MushaalMullick) February 8, 2022
Stand firm on what you believe in even if you are standing alone.#AllahuAkbar #HijabRow pic.twitter.com/69d7I7S1oO
اقصیٰ کنجھر لیلا جمالی نے مسکان کی تصویر کے ساتھ لکھا: ’21ویں صدی کی بہادر ترین خاتون۔‘
The bravest women of the 21st century! #AllahuAkbar pic.twitter.com/Fnv7SqwsVL
— Aqsa Kinjhar Leela Jamali (@AqsaLeelaJamali) February 8, 2022
ایسا نہیں کہ صرف مسکان کے حق میں ہی بات ہو رہی ہے بلکہ ان کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر بات ہو رہی ہے۔
Bombay HC in 2003,Madras HC in 2006,Kerala HC in 2018&SC in 2015,said,#Hijab is not needed in educational institutions
— Sanju Verma (@Sanju_Verma_) February 8, 2022
The girl who shouted #AllaHuAkbar is NOT a Sherni,but just a misguided radical
Shameful to see,people glorifying her regressive mindset#JaiShriRam
My take pic.twitter.com/qTem5Hbf0N