یوں تو حیدرآباد دکن کے کئی علاقوں میں مختلف نسل کے لوگ آباد ہیں، جو برسوں سے مل جل کر رہتے آ رہے ہیں، تاہم بارکس ایک ایسا علاقہ ہے جہاں صرف عرب نژاد خاندان آباد ہیں اور جن کا تعلق خاص طور پر یمن سے ہے۔
دراصل آصف جاہی دورِ حکومت میں یمن اور عربستان سے عربوں کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور وفاداری کے لیے بے مثل تھے اور اسی وجہ سے آصف جاہی خاندان نے اپنی اور سلطنت کی حفاظت کے لیے انہیں حیدرآباد میں بسایا۔
تقریباً دو سو برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان لوگوں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور آبا و اجداد کی روایات کو برقرار رکھا ہے۔
علاقے کے چند لوگوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ انہیں اپنی ثقافت اور تہذیب سے خصوصی انسیت ہے، جس کی بنا پر وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح موجودہ نسلوں نے ان روایات کو زندہ رکھا ہے، آنے والی نسلیں بھی اسی طرح اپنی تہذیب کا پرچار کرتی رہیں۔
یہ لوگ نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت کی پوری تاریخ سموئے ہوئے ہیں بلکہ اپنے اندر بڑی کشش بھی رکھتے ہیں۔
ایک رہائشی طلحہ الکثیری نے بتایا کہ ’1853 سے قبل آصف جاہی خاندان نے ان کے آبا و اجداد کو حیدرآباد آنے کے لیے دعوت دی تھی۔‘
بقول طلحہ: ’یوں تو آصفیہ دور حکومت میں راجپوت اور سکھ سمیت فوج کی متعدد رجمنٹس تھیں لیکن اس وقت کے آصف جاہی حکمران خصوصی طور پر ایک عرب رجمنٹ کا قیام عمل میں لائے۔ اُس زمانے میں تقریباً 300 سے زائد قبیلے حیدرآباد پہنچے تھے۔ بارکس کے رہائشوں کا میل ملاپ، محبت اور تہذیب وتمدن پورے حیدرآباد میں مشہور ہے۔ ہمیں یہاں آباد ہوئے تقریباً دو صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن یمن کے ساتھ تعلقات آج تک برقرار ہیں۔ نہ صرف وہاں ہمارے رشتہ دار ہیں بلکہ ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کا سلسلہ بھی قائم ہے۔‘
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بارکس کی آبادی چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ لوگوں میں عربوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کی مستقل خواہش بھی رہتی ہے کیونکہ وہ بارکس کے بعد خلیج کو اپنا دوسرا گھر مانتے ہیں۔ علاقے کے بازار میں عرب تہذیب کی جھلک صاف نظر آتی ہیں، جہاں دکانوں کے نام کے ساتھ ساتھ وہاں عربوں کی مصنوعات جس میں دبئی کے برقعے، لُنگی، سعودی چپل اور عطر شامل ہیں، جا بجا ملتی ہیں۔
سعود بن سعید باعوم کے پردادا عمر بن صالح باعوم یمن کے شہر العسیر سے حیدرآباد آئے تھے۔ وہ نظام دکن کی فوج میں صوبیدار تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کوئی بھی قوم اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتی۔ ہم آبا و اجداد کی روایات اور ثقافت سے محبت کرتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگوں نے اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ لُنگی اور عمامہ (عرب کا روایتی سکارف) ہمارا روایتی لباس ہے۔ شادیوں سے لے کر سوگ تک میں ہم اپنا روایتی لباس ہی پہنتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہم لوگ ہر جمعے کو اپنے فوت شدہ پیاروں کے قبرستان پر جاتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ اس کے بعد ایک خاندانی اجتماع ہوتا ہے جس میں مندی اور دیگر عربی پکوانوں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔‘
اسی طرح ایک اور رہائشی عارف بن حیس نے بتایا کہ بارکس میں رہائش پذیر عرب کمیونٹی اور دیگر مقامی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا ثقافتی فرق شادیوں کے رسم و رواج میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مقامی مسلمان شادیوں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ بارکس کے عرب خاندان شادیوں کو سادہ اور کم اہمیت رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ دلہن کے خاندان سے جہیز کا مطالبہ کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔‘
اگرچہ پوری دنیا میں حیدرآبادی بریانی کی دھوم ہے، تاہم مندی بارکس کے لوگوں کی اہم ڈش ہے۔ علاقے کے لوگ عربی پکوان مندی، خبسہ، گہاوا، سیلمانی چائے، حلیم اور ہریسہ سے محظوظ ہوتے ہیں۔
ماضی میں بارکس کا علاقہ آصف جاہی خاندان کی فوج سے وابستہ تھا۔
سعود بن سعید باعوم نے بتایا کہ جب نظام محبوب علی خان حیدر آباد دکن پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے جنگ میں مصروف تھے تو انہیں ایسے مضبوط اور سرشار سپاہیوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو دشمنوں کا سخت مقابلہ کر سکیں اور پھر یمن سے لوگوں کو لا کر مملکت آصفیہ کی فوج میں بھرتی کیا گیا۔
’ان میں میرے دادا بھی شامل تھے۔ یمنی فوجیوں کو میسروم میں تعنیات کیا گیا اور ان کے لیے بیرکس بنائے گئے۔ عرب لوگوں کا تلفظ ٹھیک نہیں تھا، وہ بیرکس کو بارکس کہتے تھے۔ بعد ازاں یہ بیرکس بارکس کی شکل اختیار کر گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’آج یہاں عرب لوگوں کی تیسری نسل ہے۔ علاقے کی آبادی تقریباً چار لاکھ ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اپنے آبا و اجداد کی روایات کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ ان کی حفاظت اور آئندہ نسلوں تک ان کی منتقلی کو یقینی بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔‘