ابنِ انشا اپنےسفر نامے ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘ میں لکھتے ہیں کہ چین میں چوری ہونا تو ایک طرف وہاں کسی چیز کا گم ہو کر گم رہنا بھی محال ہے۔
وہ ووہان جاتے ہوئے پیکنگ (موجودہ بیجنگ) کے ہوٹل کے غسل خانے میں اپنا پاجامہ بھول آئے تھے۔
ووہان پہنچ کر انہوں نے دم بھی نہیں لیا تھا کہ ہوٹل والے ان کے لیے ایک پیکٹ لیے حاضر ہوگئے۔ معلوم ہوا پیکنگ والوں نے ان کا پاجامہ دھو کر اور استری کر کے انہیں واپس بھیجا ہے۔
ووہان کے ہوٹل میں کچھ رسالے اور اخبار بھول آئے وہ ووہان چھوڑنے سے قبل ہی مل گئے۔
شنگھائی میں ایک تیل کی شیشی خود ضائع کر رہے تھے۔ چینیوں کو زحمت سے بچانے کے لیے پہلے ہوٹل کے بیرے کو بلا کر بتایا، پھر مینیجر کو بھی بتایا کہ وہ شیشی اپنی مرضی سے ضائع کر رہے تھے۔ اسے ان کے پیچھے بھیجنے کی زحمت نہ کی جائے۔
ان کے جانے کے بعد چین میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ موجودہ دور میں ان کا سفر نامہ پڑھا جائے تو بہت سی چیزیں مختلف محسوس ہوتی ہیں۔ تاہم، یہاں چیزوں کا چوری یا گم نہ ہونا آج بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔ کبھی کبھار تو چڑ ہونے لگتی ہے کہ ایسی بھی کیا ایمانداری۔ انسان ہو۔ کر لو نیت خراب۔ پھر آس پاس لگے کیمرے نظر آتے ہیں تو اپنی بھی عقل ٹھکانے آنے لگتی ہے۔
تاہم، یہ معاملہ صرف کیمروں کا مرہونِ منت نہیں ہے۔ چینی عمومی طور پر دھوکہ دہی اور چوری کے معاملات سے دور ہی معلوم ہوتے ہیں۔
اکثر خریداری کے دوران ہم ان کے رقم بتانے پر کچھ ماؤ (ایک یوآن میں دس ماؤ ہوتے ہیں) اوپر نیچے لکھ دیتے ہیں۔ پھر انہیں فون دکھاتے ہیں۔ ایک بھی ماؤ زیادہ یا کم ہو وہ فوراً تصحیح کرتے ہیں اور پھر ادائیگی ہوتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں سکے کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ چاہا تو دے دیا ورنہ بس ایک ججمنٹل سی نظر ڈال دی۔
کوئی بہت ہی اپنے ایمان کے بارے فکر مند ہوا تو سکے کی جگہ ایک یا دو ٹافیاں پکڑا دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین میں لائبریری اور کیفے میں کام کرتے ہوئے لیپ ٹاپ چھوڑ کر کسی کام سے چلے جانا بھی بہت عام ہے۔
لائبریری کسی نہ کسی ادارے سے منسلک ہوتی ہے۔ ہم نے بہت سے کیفے میں بھی ایسا ہوتا دیکھا ہے۔ اس صورت میں لوگ قریب میں ہی موجود کسی دکان یا بیت الخلا تک گئے ہوتے ہیں۔
شروع شروع میں ہم لائبریری میں میزوں پر بند لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ پڑے دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ کون ایسے اپنی قیمتی چیزیں کہیں بھی چھوڑ کر جاسکتا ہے۔
اس وقت ہمارے پاس ایک پرانا لیپ ٹاپ ہوتا تھا۔ کسی اور نے اسے کیا چرانا تھا، ہم بھی اسے مجبوراً ہی استعمال کر رہے تھے۔
ہم بریک پر جاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے۔
دوسری طرف چینی طلبہ اپنے مہنگے مہنگے لیپ ٹاپ بس یونہی چھوڑ کر نکل جاتے تھے۔ دو تین گھنٹوں بعد آرام سے واپس آتے تھے۔ ان کی چیزیں وہیں کی وہیں موجود ہوتی تھیں۔
ایک دن ہم نے بھی ڈرتے ڈرتے تجربہ کر ہی ڈالا۔ بمشکل آدھ گھنٹے کی ہی بریک کرسکے۔ دوڑتے دوڑتے واپس آئے۔ دور سے لیپ ٹاپ نظر آیا تو جان میں جان آئی۔
اس تجربے سے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ اب ہم بھی یونیورسٹی کی حد تک اپنی چیزیں کسی بھی جگہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ واپسی پر چیزوں کے ساتھ ساتھ اس کے چوری نہ ہونے کی خوشی بھی مل جاتی ہے۔
یونیورسٹی سے باہر ہم تھوڑی احتیاط کرتے ہیں۔ چینی اچھے لوگ ہیں لیکن اچھے لوگوں کے ایمان کا اتنا بھی امتحان نہیں لینا چاہیے۔
چینی ویسے بھی ایمان کے ستائے ہوئے ہیں۔ جس سے پوچھو فخریہ خود کو دہریہ بتاتا ہے۔ ہم توبہ استغفار کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ایک بار ہماری دوست اپنا کیمرا ٹیکسی میں بھول آئیں۔ گھر آ کر یاد آیا تو ایپ سے ٹیکسی والے کا نمبر نکال کر اسے فون کیا۔
اس نے پچھلی سیٹ پر نظر دوڑائی تو اسے کیمرا نظر آ گیا۔ اس نے فوراً اس کے ہونے کی تصدیق کردی۔
کوئی ہمارے جیسا ہوتا تو کیمرا دیکھ کر بھی نہ کہہ دیتا۔ وہ جانے کیسا انسان تھا۔ اگلے دن اسے کیمرا واپس بھی دے گیا۔
ہماری دوست نے ہمیں اپنے کیمرے کے ملنے کا بتایا تو ہم نے اسے کہا کہ اگر اس سے یہ بھول ہمارے ملک میں ہوئی ہوتی تو اس وقت وہ غم زدہ بیٹھی ہوتی۔
چینی عوامی مقامات پر فون اور بٹوہ چھن جانے کے تجربے سے بھی محروم ہیں۔ ہم نے کئی بار اپنے چینی دوستوں سے پوچھا کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ تم گلی میں فون پر نقشہ دیکھ رہے ہو یا کسی سے فون پر بات کر رہے ہو اور پیچھے سے کوئی آئے اور تمہارا فون اچک کر بھاگ جائے۔
ایک دوست تو ایسے ہماری شکل دیکھنے لگا جیسے ہم اسے اس سیارے سے باہر کا واقعہ بتا رہے ہوں۔
ہمیں پھر اسے بتانا پڑا کہ چین سے باہر بھی ایک دنیا موجود ہے اور اس دنیا میں اس قسم کے واقعات ہونا خاصا عام ہے۔
اس نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے ہمارا دماغ چل گیا ہو اور ہم بس اول فول بک رہے ہوں۔
ہمیں چینی پاگل لگتے ہیں۔ انہیں ہم پاگل لگتے ہیں۔