امریکی فضائیہ کے سابق پائلٹ گیل ہالوورسن، جنہوں نے روسی ناکہ بندی کے دوران پیراشوٹ کے ذریعے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں موجود بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرنے کا خیال متعارف کروایا تھا، 101 برس کی عمر میں چل بسے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پائلٹ گیل تاحیات امریکہ - جرمنی دوستی کے سفیر رہے، جنہوں نے امریکی ایئرفورس میں کئی نوجوان ہوابازوں کو اپنے کردار سے متاثر کیا۔
برلن کے سابق امریکی سیکٹر میں موجود سرد جنگ کے یادوں کے لیے مختص عجائب گھر کی خاتون ترجمان کے مطابق ’گیل ہالوورسن کی وفات اوٹاہ کے ہسپتال میں اپنے خاندان کی موجودگی میں ہوئی‘۔
2009 میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے پائلٹ گیل نے کہا تھا: ’اگرچہ میں نے دن رات، سردی اور برف باری میں ہوا بازی کی لیکن جب آسمان سے گرتے پیراشوٹ کو دیکھتے بچوں کے چہرے نظر آتے تو مجھے خوشی ہوتی تھی۔‘
پائلٹ گیل نے وہ مناظر یاد کرتے ہوئے کہا تھا: ’بچے بالکل دیوانے ہو جاتے تھے۔‘
مینٹل فلاس نامی ایک نیوز ویب سائٹ کے مطابق پائلٹ گیل کے اس آئیڈیے کے بعد ایک سال کے دوران اڑھائی لاکھ پیراشوٹوں کے ذریعے تقریباً 23 ٹن ٹافیاں گرائی گئیں۔
پائلٹ گیل نے کرنل کے عہدے تک ترقی پائی اور ٹیمپل ہوف ہوائی اڈے کے کمان دار بنے۔ یہ وہی ہوائی اڈہ تھا، جہاں سے 49-1948 کا برلن ایئر لفٹ آپریشن ہوا تھا۔
اس دوران ہوا بازوں نے برلن کے 25 لاکھ شہریوں کے لیے کمک بہم پہنچائی تھی، جو تاحال دوسری جنگ عظیم کے بھنور میں مبتلا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپریشن ویٹلز نامی اس مہم کے دوران امریکی، برطانوی اور جرمن ہوا بازوں سمیت زمینی عملے کے 78 اہلکار مارے گئے تھے تاکہ برلن کی آبادی کو بھوک سے بچایا جا سکے۔
اس زمانے میں پائلٹ گیل کی خدمات سے مستفید ہونے والی ایک بچی مرسیڈیز وائلڈ نے 2019 میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’میں سات سال کی تھی جب گیل کو ایک خط میں مسلسل جنگی طیاروں کے شور سے اپنی مرغیوں کے متاثر ہونے کی شکایت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انڈے قیمتی شے ہوا کرتے تھے۔‘
پائلٹ گیل نے خط کا جواب دیا اور ساتھ میں مٹھائیاں بھی بھیجیں۔
مرسیڈیز کا کہنا تھا: ’مجھے مٹھائیوں کی بجائے خط کے جواب نے زیادہ متاثر کیا۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں باپ کے بغیر پلی بڑھی تھی۔ ویسے ہی جیسے اس وقت کے دیگر جرمن بچے۔ اس لیے یہ جان کر کہ برلن کے باہر بھی کوئی میرے بارے میں سوچ رہا ہے، مجھے امید ملی۔‘
مرسیڈیز کے مطابق مسکراتے چہرے اور لمبے قد والے پائلٹ گیل ’والد کی طرح‘ تھے اور امریکہ جرمنی دوستی کے بہترین سفیر تھے۔