بعض اتفاقات بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ موجودہ مہینہ فروری، اُس اعلی شاعر کا اس دنیائے فانی سے آگے دائمی سفر کرنے کا مہینہ ہے جسے اُردو اور فارسی کا اُستاد مانا گیا ہے اور ہم سب جسے اسد اللہ خان غالب کے نام سے جانتے ہیں۔
جی ہاں وہی غالب جو 15 فروری 1869 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور جن کی شاعری اور نثر دونوں میں انفرادیت، تنوع، وسعت اور گہرائی کا ایسا امتزاج ہے جس کی ایک ساتھ کہیں اور مثال ملنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔
فروری کے مہینے میں ہی ہر سال 21 تاریخ کو مادری زبانوں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔
27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہونے والے اسد اللہ خان غالب زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف واضح موقف رکھتے تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ اس میں مجھے کون سا دلچسپ اتفاق نظر آیا ہے؟
اک ذرا صبر کہ اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں جس کا تعلق غالب کے کلکتہ (آج کے کولکتہ) کے سفر سے جُڑا ہے جو ایسا یاد گار تھا کہ جس کو یاد کر کے وہ باقی تمام عُمر آہیں بھرتے رہے۔
کلکتے کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
انگریز سرکار سے اپنی پنشن کی بحالی کے لیے کیا گیا غالب کا یہ سفر تاریخ میں محفوظ ہے۔ 20 فروری 1827 سے لے کر یکم اکتوبر 1828 تک وسطی کلکتہ کے علاقے شملہ بازار اور کٹھل بگن میں قیام اور پنشن کی بحالی کی کوششوں کے لیے انگریز افسروں سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ غالب نے کلکتہ مدرسے میں مشاعرے بھی پڑھے اور مباحثوں میں بھی حصہ لیا۔ تاریخ اپنے جھروکوں سے جھانکتے ہُوے کچھ بتا رہی ہے تو چلیے سُنتے ہیں اس کی بات۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں چشمِ تصّور سے دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ دہلی سے کلکتہ تک کا سفر اس زمانے میں آج کی طرح آسان نہ ہو گا لیکن انگریزوں کی اُس وقت کی راجدھانی میں اپنے رکے ہوئے وظیفے کی بازیابی کے لیے حاضری کی شرط پُوری کرنے کے بعد بھی انتظار کا بوجھ اُٹھائے رکھنے کو کہا جاتا ہے تو حساس شاعر پہ کیا بیت رہی ہو گی؟
اُس زمانے کے دُور دیس میں (شمالی ہندوستان والوں کے لیے مشرقی ہندوستان دور دیس جیسا ہی تھا) جب پنشن کی بحالی جیسے مقصد کا حصولِ غیر معینہ مدت کا پڑاؤ مانگتا ہو تو یقیناً غالب کے چاہنے والوں نے مناسب جگہ پہ ہی ان کے قیام کا بندوبست کیا ہوگا۔
پنشن کی بحالی کے مقصد کا حُصول کیسا بھی کٹھن رہا ہو لیکن غالب کا سفر ادبی لحاظ سے رائیگاں نہیں گیا۔ آج کلکتہ کی غالب سٹریٹ پہ اشعار کی رنگا رنگ مصوری اس بات کی گواہ ہے کہ زبان مضبوط ہو اور فن جان دار ہو تو کئی رنگوں میں زندہ رہتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں اُردو اور ہندی کی تفریق کا آغاز ہو چکا تھا۔ بعض ناقدین کی رائے کے مطابق انگریزوں کی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ پالیسی نے زبانوں کو اور پھر ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے پر جس طرح عمل درآمد کیا اُس کی ایک گواہ فورٹ ولیم کالج کی دیواریں بھی ہیں۔
غالب زبانوں کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف تھے اور اس کا برملا اظہار کلکتہ کے قیام کے دوران کرتے رہتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے رہے کہ مذہب انسان کا ہوتا ہے زبان کا نہیں لہذا فارسی اور سنسکرت کو زبانوں کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہئے مسلمانوں اور ہندؤوں کے مسلک سے منسلک کر کے نہیں۔
اب دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ زبانوں کو اُن کا جائز مقام دینے کی باتیں کلکتہ کے اس سفر کے دوران ہوتی رہیں جہاں غالب 20 فروری کو پہنچے تھے اور 21 فروری عالمی زبانوں کا دن ہے۔
شنید ہے کہ ایک بحث کے دوران مسلمان گروہ فارسی کو اپنی زبان اور ہندو گروہ سنسکرت کو اپنی زبان کہنے اور دوسری زبان کو ردّ کرنے پر بضد تھے۔ غیر جانب دار سُننے والے کنی کترا کر نکل رہے تھے مگر جب یہ اختلافی آوازیں دبیر الملک تک پہنچیں تواُنہوں نے جو کہا وہ ایک ذہین اور اعلیٰ سوچ رکھنے والا وسیع القلب انسان ہی کہہ سکتا تھا۔ اُنہوں نے یہی کہا کہ مذہب انسان کا ہوتا ہے، زبان کا نہیں۔ یہ واقعہ گُلزار کی سلسلہ وار نامور تخلیق ’غالب‘ میں بھی دکھایا گیا ہے جس میں نصیر الدین شاہ نے مرزا غالب کا کردار کچھ ایسے نبھایا ہے کہ دل مان لیتا ہے کہ غالب ایسے ہی ہوں گے۔
نجم الدولہ مرزا اسداللہ خان غالب سے متعلق زبانوں کی اہمیت اُجاگر کرتا ہوا یہ واقعہ یاد آنے کا سبب یہی فروری کا مہینہ ہے۔ 15 فروری 1869 کو دُنیائے سُخن کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا تھا اور 21 فروری کو ہر سال دُنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور کلکتے میں ان کی آمد 20 فروری کو ہوئی تھی۔
اسی مناسبت سے کلکتہ اُردو اکیڈمی نے دو سال پہلے 21 فروری کو ہی غالب کے سفرِ کلکتہ کی یاد گار کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور ایک ہفتے کی تقریبات کا انعقاد ہُوا جس میں وسطی کلکتہ کے ان علاقوں کی سیر جہاں غالب نے قیام کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔
یعنی دو صدیوں سے ایک دہائی کم کے وقفے کے بعد ٹیگور کی سرزمین پہ غالب کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا گیا جو خود اپنی زبان کا چمکتا ستارہ ہیں اور جہاں کے مغربی بنگال میں 20 لاکھ اردو بولنے والے بستے ہیں۔
نظام الملک اسد اللہ خان غالب کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اپنے تفکر میں واضح نقطہَ نظر رکھتے تھے۔ لہذا مسئلہ چاہے فلسفے کا ہو یا عقیدے کا، معاشرتی ہو، جذباتی، نفسیاتی یا پھر کائناتی۔ ۔ غالب کے منفرد خیال کی روشن شمع الگ ہی رنگ میں لَو دیتی ہے اور سحر ہونے تک جلتی ہے۔
کوئی بھی بولی یا زبان، انسانی جذبات کے اظہار کا وہ خوبصورت ذریعہ ہوتا ہے جو ہزاروں سال کے ارتقائی مدارج طے کر کے خاص مقام تک پہنچتا ہے لیکن وہاں رُکتا نہیں بلکہ مسلسل یہ منازل سر کرتا رہتا ہے۔ ہر زبان کسی نہ کسی کی مادری زبان ہوتی ہے۔ زبان کی حفاظت بولنے والے اور لکھنے والے ہی کرتے ہیں ہم سب کو مادری زبانیں مبارک !