پاکستان کی سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان ٹی ایل پی کی مرکزی شوریٰ نے 23 مارچ کو کراچی میں روڈ مارچ اور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان ٹی ایل پی کی مجلس شوریٰ نے پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی کی زیر صدارت اجلاس میں کیا ہے۔
تحریک لبیک کے نائب ناظم اعلیٰ پنجاب اختر بھٹی کے مطابق پہلے مرحلے میں مہنگائی کے خلاف کراچی میں روڈ مارچ ہوگا۔
انہوں نے بتایا: ’ تاریخ 23 مارچ رکھی گئی ہے تاکہ حکومت کواحساس دلایا جائے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے شہریوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے 23 مارچ کے حکومت مخالف لانگ مارچ میں ٹی ایل پی شریک نہیں ہوگی کیونکہ اپوزیشن جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈے پر گامزن ہیں، ان کا مقصد عوامی نہیں بلکہ ذاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ باقی اپوزیشن جماعتوں کی طرح ٹی ایل پی بھی قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر احتجاج کر سکتی ہے، اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ٹی ایل پی نے ناموس رسالت کے معاملے پر بھی سپیکر قومی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر کو لکھے گئے خطوط پر عمل درآمد کے لیے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔
خطوط کے مطالبات میں ٹی ایل پی کے فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے متعلق احتجاج پر ہونے والے معاہدے پر عمل کرنا اور بل پر اسمبلی میں بحث کے بعد فیصلہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
اختر بھٹی کے بقول مجلس شوریٰ نے ابھی صرف کراچی میں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آنے اور احتجاج کا اعلان کیا ہے جس کی قیادت پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی کریں گے اور یہ ایک روزہ احتجاج ہوگا۔
احتجاج کا دائرہ دوسرے شہروں تک بڑھانے سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تاہم آئندہ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
اختر بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلدیاتی انتخابات کی بھی تیاری کر رہے ہیں جس میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ٹی ایل پی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
ان کے خیال میں ٹی ایل پی اپنے موقف اور علیحدہ منشور کے تحت کام کر رہی ہے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں ہیں۔
اختر بھٹی کا کہنا تھا: ’کیونکہ اپوزیشن جماعتیں صرف اقتدار کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہیں اور حکومت ہٹانے میں بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔‘
ٹی ایل پی کی جانب سے تمام اپوزیشن جماعتوں اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو خطوط لکھے گئے تھے۔ جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کے دوران جو فرانسیسی سفیر کو نکلالنے کا بل اسمبلی میں پیش کر کے اس پر بحث کے بعد فیصلے کے معاہدے پر عمل کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا: ’ابھی تک سپیکر یا کسی بھی اپوزیشن جماعت کے پارلیمانی لیڈر نے اس پر جواب نہیں دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ خط بھی منظر عام پر لایا جائے گا اور سپیکر سے بھی رابطہ کیاجائے گا کہ ہمارے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟‘
سینیٹر اعجاز چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بل پر پارلیمنٹ میں بحث میں تاخیر اپوزیشن کی جانب سے ہے۔
’یہ بات ٹی ایل پی قیادت کے علم میں ہے۔ ان کا کہنا ہے پارلیمنٹ می بحث کے بعد فرانسیسی سفیر سے متعلق فیصلہ کیا جائے کیونکہ انہیں نکالنے کا مطالبہ خادم حسین رضوی کا تھا، موجودہ قیادت معاملہ آئین و قانون کے مطابق حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ایل پی کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں مہنگائی کے خلاف احتجاج اور کراچی میں مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔
واضع رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے اس سے پہلے جتنے بھی احتجاج، لانگ مارچ کیے یا دھرنے دیے ہیں وہ مذہبی مطالبات کی منظوری کے لیے تھے۔
سب سے پہلے توہین مذہب کے الزم میں گرفتار آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے بریت کے خلاف دھرنا دیا گیا اس کے بعد قومی اسمبلی میں اراکین کے حلف ناموں میں ردوبدل کے خلاف ملک گیر دھرنا دیا گیا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے فرانسیسی صدر کے بیان پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے اور پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی سمیت پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف لانگ مارچ کیا گیا تھا جس میں کئی ٹی ایل پی کارکن اور پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
اس لانگ مارچ کو ختم کرانے کے لیے حکومت نے ٹی ایل پی سے معاہدہ بھی کیا تھا جس میں سعد رضوی و دیگر قائدین اور کارکنوں کی رہائی اور ان کے خلاف مقدمات کا اخراج شامل تھا۔