پنجاب کے شہر وزیر آباد کے قریب ایک پارک میں دھرنا دینے والے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکن پیر کو واپس جانے لگے ہیں۔
ٹی ایل پی نے اپنے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے 22 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تھا جس کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی تاہم وہ لاہور سے نکلنے میں کامیاب رہے۔
29 اکتوبر کو مارچ کے شرکا جی ٹی روڈ پر سفر کرتے وزیر آباد پہنچے تو حکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے پنجاب میں رینجرز کو اختیارات سونپے اور چناب و جہلم کے پُلوں کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔
اسی دوران حکومت نے تحریک لبیک سے مذاکرت شروع کیے جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ ایک معاہدے میں تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔
تاہم اس معاہدے کو عام نہیں کیا گیا۔ معاہدے کے بعد ٹی ایل پی نے وزیر آباد میں جی ٹی روڈ پر جاری دھرنا ایک کھلے گراؤنڈ میں منتقل کر دیا تھا۔
پارٹی کا کہنا تھا کہ معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد ہونے کے بعد ہی وہ واپس جائیں گے۔
پاکستان حکومت نے گذشتہ رات ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے ٹی ایل پی پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔
اس کے علاوہ لانگ مارچ کے دوران گرفتار ہونے والے تیظیم کے کارکن بھی رہا ہو چکے ہیں۔
ترجمان ٹی ایل پی صدام حسین بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جماعت کی مجلس شوریٰ نے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے طے پانے والے معاہدے کے پیش نظر 50 فیصد مطالبات تسلیم ہونے پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ پارٹی نے کارکنوں کو دھرنا ختم کرکے لاہور میں مسجد رحمت العالمین پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب وزیر آباد میں جی ٹی روڈ سے رکاوٹیں ہٹانے والی مشینری پہنچ چکی ہے اور انٹرنیٹ کی جزوی بحالی بھی جاری ہے۔
صدام بخاری کے مطابق حکومت نے جماعت کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا ہے اور رہنماؤں اور کارکنوں بھی رہا ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب صرف تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی اور فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ باقی رہ گیا ہے جو امید ہے جلد پورا ہو جائے گا۔