اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے غیرمعمولی اجلاس میں ایک طرف 193 ممبران کی جانب سے ماسکو کی ’بلااشتعال مسلح جارحیت‘ پر مذمتی قرارداد پر بحث کی گئی تو دوسری جانب روس نے یوکرین پر حملے کا دفاع کیا ہے۔
یوکرین پر حملے کے بعد روس کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہا ہے۔ برطانیہ نے اپنی تمام بندرگاہوں پر سے روسی بحری جہازوں کو ہٹانے کا کہا ہے جبکہ ساتھ ہی روس کا سفر کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔
دوسری جانب نے بھی دیگر ممالک کی طرح روس کے ساتھ بین الاقوامی فٹ بال میچز کھیلنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ فٹبال کے عالمی ادارے فیفا اور یویفا نے روسی کلبز اور قومی ٹیم کو تمام مقابلوں میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔
ایک طرف جہاں روس کو مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے وہیں پیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ایک مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنرل اسمبلی کے اجلاس کا آغاز اس تمام تنازع میں اب تک مارے جانے والے افراد کے لیے ایک منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتیریش نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’یوکرین میں لڑائی فوری طور پر ختم ہونے چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب بہت ہوا۔ فوجیوں کو اپنے بیرکوں میں واپس جانا چاہیے۔ قائدین کو امن کی جانب بڑھنا چاہیے۔ شہریوں کا تحفظ کیا جائے۔‘
قرارداد کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس پر ووٹنگ کا عمل منگل کو ہی ہو پائے گا۔ اسے مرتب کرنے والوں کے خیال میں وہ اس کے حق میں 100 سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ دوسری جانب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شام، چین، کیوبا اور بھارت جیسے ممالک یا تو روس کی حمایت کریں گے یا پھر خاموش رہیں گے۔
روسی وزارت خارجہ نے پیر کو کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ وزارت کی جانب سے تصاویر جاری کی گئی ہیں جس میں دونوں فریقوں کے وفود ایک بڑی میز پر آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذاکرات کے آغاز سے قبل یوکرین کی طرف سے بھی بات چیت کا عندیہ دیا گیا تھا۔ یوکرین کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات سے اس کا مقصد فوری جنگ بندی اور یوکرین سے روسی فوج کی واپسی ہے۔ دوسری جانب روس کا انداز محتاط ہے اور اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں کیا چاہتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بیلاروس کے سرکاری خبر رساں ادارے بیلتا نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلے بار بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق: ’روس اور یوکرین پہلی بار مذاکرات کر رہے ہیں۔‘بات چیت کے آغاز سے قبل یوکرین کے صدارتی دفتر نے مطالبہ کیا تھا کہ روس سے فوری جنگ بندی اور روسی فوج کے یوکرین سے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔
ادھر پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے روس کے یوکرین پر حملے کا معاملہ فوری طور پر زیر بحث لانے کے حق میں ووٹ دیا ہے جس سے ماسکو مزید الگ تھلگ ہو گا جس نے جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں وضاحت کرنے کی یوکرین کی کوشش کی مخالفت کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا انتہائی غیرمعمولی اور ہنگامی اجلاس آج (پیر کو) طلب کر لیا گیا ہے جس میں یوکرین پر روسی حملے کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔
روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے پناہگزینوں سے متعلق ادارے (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فلیپوگرینڈی نے کہا ہے کہ روس کے حملے کے بعد یوکرین سے فرار ہو ہر ہمسایہ ملکوں میں پہنچنے والے افراد کی تعداد پانچ لاکھ ہو گئی ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے پانچویں دن یوکرینی فوج نے کہا کہ روسی فوجیوں نے ’حملے کی شدت‘ کو کم کردیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مسلح افواج کے سٹاف جنرل نے کہا: ’روسی قابضین نے حملے کی شدت کو کم کر دیا ہے لیکن وہ اب بھی بعض علاقوں میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
مشرقی یورپی ملک بیلاروس نے پیر کو کہا کہ یوکرین اور روس کے وفود کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کے لیے جگہ تیار کرلی ہے۔
یوکرین نے ماسکو کے اہم اتحادی ہمسایہ ملک بیلاروس میں روسی نمائندوں سے ملاقات کے لیے ایک وفد بھیجنے پر اتفاق کیا ہے، بیلاروس نے یوکرین پر حملے کے لیے روسی فوجیوں کو راستہ فراہم کیا تھا۔
بیلاروس کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر ایک لمبی میز کی تصویر شیئر کی جس پر روسی اور یوکرینی پرچم رکھے ہوئے ہیں۔ پوسٹ میں کہا گیا، ’بیلاروس میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے لیے جگہ تیار کرلی گئی ہے ،وفود کی آمد متوقع ہے۔‘
بیلاروسی وزارت خارجہ کے ترجمان اناتولی گلیز نے کہا: ’تمام وفود کے پہنچتے ہی مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔‘
روس نے گذشتہ جمعرات کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ یوکرین پر روس کے حملے میں سہولت کار کے کردار کے پیش نظر کیئف ابتدا میں بیلاروس میں وفد بھیجنے سے گریزاں تھا۔
یوکرینی افواج کی روسی جارحیت کے خلاف سخت مزاحمت اور ولادی میر پوتن کی جانب سے جوہری افواج کو ہائی الرٹ کرنے کا حکم دینے کے ایک دن بعد یوکرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مذاکرات کے دوران پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یوکرین میں ہونے والی لڑائی میں بچوں سمیت درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں. کیئف کے مطابق مذاکرات کی کوئی پیشگی شرائط نہیں ہیں۔
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے کہا کہ وہ بیلاروس میں بات چیت کے امکانات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہمیشہ کی طرح، میں اس ملاقات کے نتائج پر واقعی یقین نہیں رکھتا لیکن انہیں کوشش کرنے دیں۔‘
روسی بینک کے یورپی اداروں کا دیوالیہ پن کا خدشہ، یورپی بینک
یورپی سینٹرل بینک (ای سی بی) نے پیر کو کہا ہے کہ روس پر پابندیوں کے بعد ماسکو کی ملکیت ’سبر بینک‘ کے یورپی ذیلی اداروں کو دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔
سبربینک یورپ اے جی کا صدر دفتر آسٹریا میں ہے اور اس کی شاخیں کروشیا اور سلووینیا میں بھی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ای سی بی نے کہا کہ: ’جیوپولیٹیکل کشیدگی کے اثرات کے نتیجے میں اس بینک کے ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔‘
ای سی بی نے ایک بیان میں کہا: ’یورپی مرکزی بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سبربینک یورپ اے جی اور بینکنگ یونین میں اس کے دو ذیلی ادارے، کروشیا میں سبربینک ڈی ڈی اور سلووینیا میں سبربینک بینکا ڈی ڈی اپنی لیکویڈیٹی کی خراب صورتحال کی وجہ سے دوالیہ ہورہے ہیں یا ہونے کا امکان ہے۔‘
مزید کہا گیا: ’امکان ہے کہ بینک اپنے قرضوں یا دیگر واجبات کی ادائیگی نہیں کر پائے گا۔‘
روس کے دو بڑے بینکوں سبربینک اور وی ٹی بی پر امریکہ کی جانب سے جمعرات کو سخت پابندیاں لگائی گئی تھیں جن کا مقصد بین الاقوامی سطح پر ان کے کاروبار کو محدود کرنا تھا۔
ہفتے کے آخر میں اس اعلان کے ساتھ پابندیاں مزید بڑھا دی گئی تھیں کہ منتخب شدہ ان بینکوں کو بین الاقوامی سوئفٹ ادائیگی کے نظام سے نکال دیا جائے گا۔
سبربینک یورپ اے جی روسی کمپنی کی 100 فیصد ملکیت ہے۔ اس کے بوسنیا اور ہرزیگووینا، چیک جمہوریہ، ہنگری اور سربیا میں بھی ذیلی ادارے ہیں جو ای سی بی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
ای سی بی نے کہا کہ انہوں نے ان ممالک میں ’قومی اہل حکام کے ساتھ رابطہ‘ کیا ہے۔
اُدھر خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اقوامتحدہ میں آج یوکرین کے موضوع پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ روس نے اس اجلاس کو بلانے کی مخالفت کی تھی۔
صدر پوتن نے روس کی ایٹمی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا
روس کے صدر ولادی میرپوتن نے ملک کی فوجی کمان کو حکم دیا ہے کہ دفاعی فورسز کے وہ یونٹ جن میں جوہری ہتھیار بھی شامل ہیں، کو انتہائی چوکس کر دیا جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر پوتن نے یہ حکم نیٹو رہنماؤں کے جارحانہ بیانات اور معاشی پابندیوں کے تناظر میں دیا۔
صدر پوتن نے سرکاری ٹیلی ویژن پر کہا: ’جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف مغربی ملک ہمارے خلاف معاشی سمت میں غیر دوستانہ اقدامات کر رہے ہیں، میرا مطلب ہے کہ غیر قانونی پابندیاں لگا رہے ہیں جن کے بارے میں ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے، بلکہ نیٹو کے اعلیٰ رہنما ہمارے ملک کے حوالے سے جارحانہ بیانات جاری کر رہے ہیں۔‘