مغرب کے کسی مرد مفکر نے اپنی صنف سے کہا تھا کہ عورت ہونے کا دکھ سمجھنے کے لیے آپ کو عورت بن کر مردوں کے معاشرے میں زندہ رہنے کی جدوجہد کرنی پڑے گی تبھی آپ یہ بھید جان سکیں گے۔
میں سمجھتی ہوں کہ صرف عورت کا دکھ نہیں بلکہ کائناتی عشق کے راز جاننے کے لیے بھی عورت بن کر سوچنا پڑتا ہے اور یہ بھید ہمارے صوفی شاعر پا گئے تھے شاید اسی لیے وہ عورت کی زبان میں اظہارِ عشق کرتے رہے جہاں ہجر و وصال کے جذبے عورت ہی کی زبان سے ادا ہوئے۔ اس لیے کہ اپنی ذات کو مٹا کر دوسرے کو شناخت دینے کا ظرف، قدرت نے صنفِ نازک کو بدرجہ اتم ادا کیا ہے۔
رانجھا رانجھا کردی نی
میں آپے رانجھا ہوئی
آئیے آج اسی عورت کی بات کریں، ایک عام عورت کی بات۔
زندگی کی ازل سے چلنے والی داستان کے دو مرکزی کرداروں میں سے ایک کردار عورت، جو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، محبوبہ اور سب سے بڑھ کر ایک ساتھی، ایک دوست، ایک ہمراہی، ایک ہمراز ہے۔ زندگی کے تغیر بھرے راستوں پر مرد کی مستقل ہمسفر، رزم گاہِ حیات میں قدم بہ قدم ساتھ نبھاتی، حوصلہ بڑھاتی۔ جنگ کا فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن اسے فاتح ماننے والی، حقیقی خدا کے بعد اسے مجازی خدا کا درجہ دینے والی عورت۔
معاشرے کے بناؤ میں تعمیر کے وقت اپنی خوشیاں، اپنی ذات اور اپنی پہچان بھلا دینے والی اور اپنی ہستی مٹا کر گھر کی شناخت کو ترجیح دینے والی عورت۔
اپنی سوچ کا گلا گھونٹ کر معاشرے کے لگے بندھے اصولوں کی آبیاری کرنے والی، اپنی خواہشوں کو بھول کر رشتوں کی ترجیحات میں درجہ بندی کرتے ہوئے اپنا آپ گنوانے والی، اپنی عمر کی نقدی دوسروں کی ضروریات پر خرچ کرنے والی اور اپنی ذات کو مٹا کر دوسروں کو پہچان دینے والی عورت۔
اپنی قطرہ قطرہ کشید کی ہوئی خواہشوں کا رس اپنوں کی پیاس کے صحرا پہ لٹا دینے کا ظرف رکھنے والی عورت کا یہ کردار، ایثار، قربانی اور بےمثال محبت کا کردار ہے۔
لیکن ان تمام ذہنی، جسمانی، فکری اور معاشرتی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اس کردار کا اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ اپنی تخلیقی سوچ اور منفرد پہچان نہیں بھولی۔ اس کا احساس، اس کی بصیرت، اس کی بصارت اور اس کی سماعت کے رنگ کہیں پھیکے نہیں پڑے۔
یہ آج بھی سر اٹھا کر بات کرتی ہے چاہے اس کی آنکھوں میں پانی ہی کیوں نہ ہو۔ سنیے کہ سر اٹھا کر بات کرتی ہوئی عورت کیا کہنا چاہتی ہے۔ یہ اپنی آزادی اور حقوق کی بات کرتی ہے لیکن یہ حقوق وہ نہیں جو معاشرہ اپنی آسائشوں کے دائرے میں رہ کر اپنے لگے بندھے اصولوں کے تحت بناتا ہے بلکہ یہ حقوق وہ ہیں جن کا حصول عورت کی فطرت میں خدا کی رضا مندی سے شامل ہے۔
آج کی عورت کو اپنی خوبصورتی پر کہے جانے والے ستائشی کلمات کی نہیں بلکہ اپنی سوچ اور خیال کی ندرتوں کی حوصلہ افزائی چاہیے۔ آج کی عورت کو اپنے تخلیقی اظہار کے ذرائع کو استعمال کرنے کا حق چاہیے۔
لیکن ٹھہریے، کیا اس سے پہلے ہم نے اس کے پیدائشی حقوق تسلیم کر لیے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آبادی کے تناسب میں پلہ بھاری ہونے کا جرم رکھنے والی یہ مخلوق صدیوں پہلے کسی جگہ پر پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کی جاتی تھی تو آج بھی کہیں کہیں الٹرا ساؤنڈ کا نتیجہ جان کر پیدائش سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں بے جان کر دی جاتی ہے۔
پیغمبروں پہ اترنے والی وحی کی پہلی گواہی دینے والی عورت کو اظہار کی آزادی نہیں کہ آج بھی اس کی زبان نہیں تو بات ضرور کاٹ دی جاتی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی شاہراہوں پر جو بڑے بڑے ناموں کی تختیاں لگی ہیں ان میں سے کتنے نام عورتوں کے ہیں؟ حالانکہ ان راستوں کی تعمیر اور منزلوں کی مسافت میں یہ معمار بھی رہی ہیں اور ہمسفر بھی۔
کیا کہا، وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ؟
معاف کیجیے صاحب، عورت، تصویرِ کائنات میں بھرا ہوا محض ایک رنگ نہیں بلکہ اس تصویر کے بنانے والوں میں شامل ہے اور رنگ بھرنے والوں میں بھی۔
’ہم مائیں بہنیں بیٹیاں‘ کا نعرہ دلکش سہی لیکن اس سے عام مرد نے شاید یہ سمجھ لیا کہ عزت کے قابل ماں، بہن اور بیٹی ہی ہے باقی سڑک پہ چلتی یا دفتروں کھلیانوں میں کام کرتی عورت محض عورت ہے۔ تو مسئلہ یہی ہے کہ عزت، عورت کی کرنی چاہیے صرف رشتے کی نہیں۔
گھروں کے علاوہ کھیتوں، کارخانوں، دفتروں حتی کہ خلاؤں میں بھی کام کرنے والی عورت ذہنی اور جسمانی مشقت میں کسی طرح کم نہیں اور ہر طرح کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی قوتِ پرواز، فکری صلاحیت اور ذہنی قوت کسی لحاظ سے کمتر نہیں۔ اگر اس کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو انسانی تاریخ کے ارتقا کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے۔
آج کی عورت فکری آزادی کی بات کرتی ہے کیونکہ معاشی آزادی کے بعد بھی اسے اظہارِ نمو کی وہ آزادی حاصل نہیں جس کا وعدہ آسمانی صحیفوں میں بھی ملتا ہے۔
عورت بن کر سوچو گے تو بات سمجھ میں آئے گی
دل کی آنکھ سے دیکھو گے تو بات سمجھ میں آئے گی