ایک بیٹا تازہ تازہ شہر سے بی اے پاس کر کے واپس گاؤں آیا اور بڑے فخر سے باپ کے ساتھ صبح ناشتہ کرنے بیٹھا۔
ان پڑھ دیہاتی باپ نے پوچھا، ’بیٹا، شہر سے جو تعلیم حاصل کرکے آئے ہو، اس کا کچھ فائدہ بھی ہے؟‘
ہونہار بیٹا منطق پڑھ کر آیا تھا، اس نے باپ کے سامنے پلیٹ میں رکھا ابلا ہوا انڈا اٹھا کر کہا، ’میں منطق کی رو سے یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ ایک نہیں، دو انڈے ہیں۔‘
باپ نے پوچھا، ’وہ کیسے؟‘
منطقی بیٹے نے کہا، ’دیکھیے، ایک انڈا تو یہ پلیٹ میں رکھا ہوا ہے، دوسرا انڈا وہ ہے جو آپ کے تصور میں موجود ہے، اس تصوراتی انڈے میں وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جو اس انڈے میں ہیں۔ یعنی ایک انڈا ہے دوسری اس کی ماہیت ہے۔‘
ان پڑھ باپ پہلے تو ہونقوں کی طرح منہ دیکھتا رہا اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا پھر اس نے یقینی اور بے یقینی کی دو انتہاؤں کے برزخ سے گزرتے ہوئے واحد انڈے کو اٹھا کر منہ میں رکھا اور کہا کہ بیٹا، ’اب ماہیت والا دوسرا انڈا تم خود کھا لو۔‘
ہمارے حکمران بھی عوام کے سامنے ترقی کی منطق کے ’انڈائے دیگر‘ کا وجود ثابت کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں اور اس کے لیے اعداد و شمار کے برتن گھمائے چلے جا رہے ہیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اور اشرافیہ پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اکثر تو باہر کی بڑی بڑی نامور یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے آئے ہیں بلکہ ہمیشہ سے آتے رہے ہیں تاکہ ان پڑھ عوام پہ حکمرانی کرکے انہیں جینے کا ڈھنگ سکھا سکیں اور اس فخر کا احساس دلائیں کہ وہ کیسی خوش قسمت رعایا ہیں۔ یہ پڑھے لکھے حکمران، ان پڑھ عوام کو ہمیشہ سے بتاتے آئے ہیں کہ ملک میں ترقی کی شرح اطمینان بخش ہے۔
ظاہر ہے کہ انہی اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے لوگوں کے ہاتھوں میں ہی جمع خرچ کے حسابات ہونے چاہییں تاکہ اس بات کا بہترین طریقے سے فیصلہ ہو سکے کہ کتنی رقم، کس جگہ زیادہ خرچ ہوگی، کہاں کم، کہاں بالکل کم اور کہاں سِرے سے ہی نہیں۔
اچھا ہے ورنہ ان پڑھ یا سرکاری مدرسوں یا پھر زیادہ سے زیادہ مقامی نجی تعلیمی سکولوں سے سند یافتہ طبقات تو جانے کہاں کیا خرچ کر ڈالیں۔ اور تو اور غریب بھوکے کا کیا بھروسہ کہ روٹی پہ ہی سارا بجٹ لگا دے جنہوں نے بہت پہلے اپنے نمائندہ شاعر نظیر اکبر آبادی کو بتا دیا تھا کہ کوئی بھی دائرہ نما شے چاہے وہ نصف النہار پہ آفتاب ہو یا آدھی رات کا ماہِ تمام، ہم کیا جانیں:
ہم تو نہ چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے
بابا، ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں!
اب ترقی کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے پانچ روپے کی روٹی 15 روپے کی ہوگئی تو غریب کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ تین گُنا اضافے کے ساتھ دو سو فی صد اضافہ، افراطِ زر کے مجموعی اضافے میں کتنے فی صد کا حصے دار ہے۔ بھوکے کا تو ویسے ہی سر چکرایا رہتا ہے اسے کیا خبر؟
لہٰذا حساب کتاب کے کھیل کا تاج تو پڑھے لکھے بڑے لوگوں کے سر پر ہی سجتا ہے اس لیے حکمران، عوام کے سامنے ترقی کے ایک انڈے کو دو ثابت کرنے کی مسلسل کاوشوں میں لگے رہتے ہیں۔
ترقی وتنزلی کی بھی خوب کہی، ہر کوئی اس چادر کو اپنے ہی گز سے ناپتا ہے۔
ارب پتی تاجر کو کروڑوں کے ممکنہ منافع میں کمی ہو جائے تو نقصان، کروڑ پتی بزنس مین کے اپنے حسابی چڑھتے کاروبار میں اتار آجائے تو خسارہ!
لکھ پتی کارپوریٹ ممبر کو ٹیکس دینا پڑ جائے تو معیشت زبوں حال۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سونے اور کرنسی کے ڈیلروں کو اپنی عینک سے نظر آنے والی شرح کی اونچی اڑان ذرا ہلکی لگے تو اقتصادی ماحول ناساز گار۔
سٹاک مارکیٹ میں روزانہ لاکھوں کمانے والوں کی جب اپنی جیب میں رکھے شیئر کی قیمت گِر جائے تو ان کے کاروباری تصورات میں اپنے نتھنوں سے دھواں نکالتا اور سُموں سے خاک اڑاتا بیل، لمبی نیند سوئے ہوئے ریچھ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور رحجان منفی۔
ان ارب پتی، کروڑ پتی اور لکھ پتی کے بعد اب بچ گئے ہیں ’ہزار پتی‘ تو ان کی کیا بُود و باش پوچھو ہو کہ ننگے نہائیں گے کیا اور نچوڑیں گے کیا؟
یہ سب روزانہ کی بنیاد پر جُوئے شِیر لانے والے فرہاد، کمائی کی نہریں کھودتے کھودتے ایسے ادھ موئے ہو چکے ہیں کہ حاصل ہونے والا برائے نام شِیر بھی انہیں کڑوا لگنے لگتا ہے۔
چلیں چھوڑیں روٹی کی چھوٹی بات اور دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے اشاریے کیا اشارے دے رہے ہیں۔
سب سے پہلے ڈالر کہ بین الاقوامی مالیاتی گورکھ دھندے میں یہ شکنجہ سب سے سخت ہے، ایک امریکی ڈالر حاصل کرنے کے لیے پانچ سال پہلے تقریباً 110 پاکستانی روپے دینے پڑتے تھے اب 175 روپے سے زائد آپ کی مُٹھی میں ہیں تو ایک ڈالر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، ترقی تو ہوئی نا، کسی کی سہی!
پیٹرول کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چلتا بلکہ کسی بھی انجن کے چاروں پہیوں میں سے بھی کوئی ایک نہیں چلتا۔ پانچ سال میں 66 روپے سے 146 روپے فی لیٹر کی ترقی کے بعد بھی ان پڑھ عوام ترقی کی قدر نہ کریں تو اس میں کسی کا کیا قصور؟
خیر بات ہو رہی تھی اعلیٰ تعلیم یافتہ حکمرانوں کی جو انتہائی عالمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے، منطق کی رُو سے اور infinity سے پہلے کے تمام اعدادوشمار استعمال میں لاتے ہوئے یہ بتانے اور سمجھانے کی سعی کرتے رہتے ہیں کہ شرحِ نمو اطمینان بخش رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور یہ بھی کہ ارد گرد کی سرحدوں کے باہر ہمارے علاقے سے کہیں زیادہ برے حالات ہیں۔ (اب جانے یہ کیا انسانی سائیکی ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے جیسی بلکہ بدتر تکلیف میں دیکھ کر راحت ملنے لگتی ہے کہ چلو ہم ان سے تو بہتر ہیں)۔
لیکن صاحب، کہانی میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ دیہاتی باپ کے برعکس، ترقی کا واحد حقیقی انڈا عوام اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
75 سال پہلے طلوع ہونے والی صبح کے ناشتے پر بیٹھے بیٹھے دوپہر ہو گئی ہے اور بیچارے عوام ابھی تک ’عالمِ ہونقی‘میں ساکت و جامد بیٹھے ہیں۔
کرشماتی کرامات اور معجزوں پہ ایمان رکھنے والی ہماری قوم منطق پہ زیادہ یقین نہیں رکھتی لیکن اس کے باوجود ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدن والی صورت بنائے دم بخود ہے۔
اب انتظار اس وقت کا ہے، جو کہ مستقبل قریب تو کیا بعید میں بھی نظر نہیں آتا کہ جب عوام خُمارِ بیگانگی سے بیدار ہو کر اصلی اور واحد انڈا اٹھائیں اور کہیں کہ جناب، ’اب ترقی کی منطق کا دوسرا انڈا آپ خود کھا لیں۔‘