’میں ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھا جب والدہ نے فون کیا کہ مسجد میں دھماکہ ہوا ہے۔ میں تقریباً 20 منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں کیونکہ ہر طرف لاشیں پڑی تھیں اور لواحقین اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے۔‘
یہ کہنا تھا پشاور میں کوچہ رسالدار کے رہائشی ڈاکٹر علی محمد رضا کا، جن کے والد میر ناصر علی اور تین چچاؤں سمیت خاندان کے پانچ افراد جمعے کو ہونے والے دھماکے میں جان سے چلے گئے۔
ڈاکٹر علی نے بتایا کہ ’جائے وقوعہ پر عجیب منظر تھا۔ لوگ زخمیوں کو اپنے مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچا رہے تھے اور چونکہ ہسپتال اس صورتحال کے لیے تیار نہیں تھا تو وہاں پر بھی افراتفری کا عالم تھا۔‘
انہوں نے بتایا ان کے والد مسجد کی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری تھے اور مسجد کے تمام تر انتظامی امور ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ مسجد کے متحرک کارکنان میں شامل تھے۔
ڈاکٹر علی کے مطابق ان کے والد ایک بینک میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ’ایک چچا ریٹائرڈ بینکر تھے جبکہ باقی خاندان کے افراد ذاتی کاروبار کرتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کے ٹراما روم اتنا چھوٹا تھا کہ وہاں پر زخمیوں کو طبی امداد دینے میں مشکلات سامنے آرہی تھیں۔
’ایسا عالم تھا کہ لواحقین کو لاشیں نہیں مل رہی تھیں۔ میں نے ہسپتال میں رکھی لاشوں میں سے اپنے والد کی لاش کو تلاش کیا لیکن مجھے نہیں ملی۔ ایک چچا نے لاش کو تلاش کر کے ہسپتال میں دوسری جگہ پر رکھ دیا تھا کیونکہ وہاں پر جگہ کم پڑ گئی تھی۔‘
ڈاکٹر علی کے گھر پر لوگوں کی فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے ڈاکٹر دوست سمیت مختلف افراد ان سے تعزیت کے لیے آتے ہیں۔
پشاور میں جمعے کی نماز کے دوران شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد پر 62 افراد کی جان لینے والے خودکش حملے کی ذمہ داری عالمی کالعدم شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو پولیس نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے دو کٹے ہوئے پیروں کی مدد سے حملہ آور کو شناخت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کر دی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روایتی شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص مسجد میں داخل ہوتے وقت پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرتا ہے۔
ویڈیو کے مطابق مسجد میں داخل ہونے کے بعد حملہ آور نے خود کش جیکٹ کی مدد سے دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں اس میں موجود بال بیرنگز نے مسجد میں تباہی پھیلا دی۔
پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے اے ایف پی کو بتایا: ’سات لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ دو کٹے پیروں کے بارے میں ہمارا ماننا ہے کہ وہ حملہ آور کے ہیں۔ ہم ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے حملہ آور کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حملے میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد 62 ہو گئی ہے، جن میں 10 سال سے کم عمر کے سات بچے بھی شامل ہیں۔