وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع ضلعی عدالتوں پر آٹھ سال قبل تین مارچ 2014 کو دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں جج سمیت 11 افراد جان کی بازی ہارے اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی حملے کے بعد کی صورت حال خود وہاں موجود ہوکر دیکھی ہو۔
میں اس وقت کیپیٹل ٹی وی سے منسلک تھی اور عدالتی امور کی کوریج کرتی تھی۔ اس دن صبح گھر سے سپریم کورٹ روانہ ہوئی۔ ابھی راستے میں ہی تھی کہ اطلاع ملی کہ ایف ایٹ کچہری میں دہشت گردوں کا حملہ ہو گیا ہے۔ سنتے ہی خوف پورے جسم میں سرائیت کر گیا۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سپریم کورٹ جانا ہے، دفتر جانا ہے یا جائے وقوعہ۔ حملہ عدالت میں ہوا تھا تو خوف لازم تھا کیونکہ میں خود بھی اکثر کسی نہ کسی کیس کی کوریج کی لیے کچہری جاتی رہتی تھی۔
یہ سوچ رہی تھی کہ اگر میں حملے کے وقت کچہری میں ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟ بس اتنا ہی سوچا تھا کہ فون کی گھنٹی بج پڑی، دیکھا تو دفتر سے فون تھا۔ فون اٹھایا تو نیوز ڈیسک سے افراتفری کے عالم میں پوچھا گیا کہ تم کہاں پر ہو راستے میں ہو تو سیدھا دفتر آؤ پہلے۔
دفتر پہنچی تو ہر طرف ہلچل مچی ہوئی تھی۔ کرائم رپورٹرز پہلے ہی جائے وقوعہ پر چلے گئے تھے۔ کچھ دیر بعد دفتر کی طرف سے ہدایت ملی کہ آپ بھی چلی جائیں کچہری اور حالات واقعات پر بیپر دیں۔ ڈرائیور اور کیمرا مین کے ہمراہ وہاں پہنچی تو سکیورٹی اہلکاروں نے تب تک کچہری کے اندرونی حصے کو عام داخلے کے لیے بند کر دیا تھا۔ میڈیا نمائندگان پارکنگ اور کچہری کے اطراف میں موجود تھے۔
کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد کی صورت حال کو قریب سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ میں کیمرا مین کے ساتھ اس چیمبر کے باہر پہنچی جہاں دھماکہ ہوا تھا۔ اس کے شیشے کی دیواریں اور دروازے سب چکنا چور ہو چکے تھے۔ کچھ چیتھڑے بھی تھے جنہیں دیکھے بغیر ٹوٹے شیشوں کی کرچیوں سے بچتے بچاتے قدرے مخفوظ جگہ تلاش کر کے ویڈیو ریکارڈنگ کروائی اور واپسی کی راہ لی۔ میں نیچے زمین پر دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی کہ کہیں کوئی اعضا یا کچھ ایسا نظر میں نہ آ جائے جسے دیکھ کر اس کے نفسیاتی اثرات میرے ذہن میں پیوست ہو جائیں۔
مجھے رپورٹنگ شروع کیے ہوئے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا، دل بھی کمزور تھا اور خوف برداشت کرنے کی سکت کم تھی۔ لگ رہا تھا کہ ادھ ٹوٹے دروازے سے کوئی گولی آئے گی اور سینے میں پیوست ہو جائے گی۔ یا پھر ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑے گلیوں میں سے کوئی ایک دم وارد ہو جائے گا۔ ساتھ موجود کیمرا مین نے خوف سے زرد ہوتے میرے چہرے کو دیکھا تو کہا کہ ’آپ چلیں یہاں سے۔‘
وہاں موجود ایک وکیل نے بتایا کہ آج کے حملے میں ایک نوجوان خاتون وکیل، فضا ملک، بھی ہلاک ہوئی ہیں اور بدقسمتی سے وہ حملہ آوروں کی گولی کا نشانہ بننے والی پہلی شکار تھیں۔ ان کی گردن پر گولی لگی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
ایف ایٹ کچہری تنگ گلیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پہنچنے کے تین مرکزی راستے ہیں جو مرکز کے اطراف سے جاتے ہیں۔ پولیس رپورٹس کے مطابق حملہ آور تین اطراف سے داخل ہوئے تھے۔ گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ بچ نکلنے کا راستہ بھی نہیں ملتا۔ عدالتوں کے ساتھ ساتھ وکلا کے بے تحاشا بنے چیمبرز نے مزید انتشار برپا کر رکھا ہے۔ ملزمان کو جب پولیس کے نرغے میں لایا جاتا ہے تو اطراف میں بہت محدود جگہ بچتی ہے۔ چیمبرز کی دیواریں دروازے بھی شیشے کے ہیں جس کے اندر دروازہ بند کر کے بھی آپ حملہ ہونے کی صورت میں مخفوظ نہیں رہ سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد دفتر واپس آئی لیکن واقعے کی پرچھائیں آسیب بن کر میرے ساتھ آئی تھی۔ میں وہ رات سو نہیں سکی۔ وکیل فضا ملک کی ہلاکت میری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوئی تھی لیکن تصور میں میں دیکھ سکتی تھی کہ کیسے وہ کمرۂ عدالت کے دروازے سے جب باہر شور سن کر نکلی تو سامنے کھڑے دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی۔
اگلی صبح خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے مقدمے کی سماعت تھی۔ خصوصی عدالت کے لیے بھی سکیورٹی الرٹ جاری ہو چکے تھے کہ وہاں بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ خصوصی عدالت میں سکیورٹی کے بھرپور انتظامات تھے، جنہیں تین حصار میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصار میں پولیس، دوسرے میں رینجرز اور تیسرے میں فوج تھی جو کمرۂ عدالت کے باہر تعینات تھی۔
مجھے کوریج کے لیے جانا تھا تو میرے ساتھی صحافیوں نے میری حوصلہ افزائی کی کہ تم ڈرو مت، ہم بھی تو ادھر ہی ہوں گے اور سکیورٹی بھی زیادہ ہے۔ خصوصی عدالت نیشنل لائبریری میں قائم تھی۔ جب اگلے دن وہاں گئی تو ہر کسی کو شک کی نظر سے دیکھا کیونکہ جاری ہونے والے سکیورٹی الرٹ میں لکھا تھا کہ حملہ آور سکیورٹی اہلکاروں یا وکلا کے یونیفارم میں بھی ہو سکتے ہیں۔
میرے ساتھ دیگر رپورٹروں نے بھی کچہری حملے کو کور کیا تھا اور کچھ مجھ سے بھی پہلے موقعے پر پہنچے تھے۔ ان میں عفت حسن رضوی بھی تھیں جو اس وقت جیو نیوز کے لیے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ میں نے ان سے بھی بات کی کہ انہوں نے جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچ کر کیا محسوس کیا۔
عفت نے بتایا: ’علی الصبح سپریم کورٹ پہنچنا روز کا معمول تھا۔ میں جیو کی ڈی ایس این جی میں سپریم کورٹ کے لیے روانہ ہوئی تو دفتر سے کال آگئی کہ ایف ایٹ کچہری میں فائرنگ ہوئی ہے شاید کسی مقدمے کے فریقین میں کوئی جھگڑا وغیرہ۔ ذرا وہ دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نکل جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ وہاں پہنچیں تو گاڑی سے اترتے ہی دھماکے کی آواز سنی۔ ’میں نے فائرنگ اور خوف سے وکلا کے زرد چہرے دیکھے، داخلی دروازے کی جانب لپکی تو اندر سے وقفے وقفے سے خون میں لتھڑے وکلا بھاگ کر باہر آ رہے تھے۔ ہم حملے کے دوران پہنچنے والی میڈیا کی پہلی ٹیم تھے۔ میں کچہری کی محل وقوع سے ناواقف تھی اور فون پہ لائیو بیپر دے رہی تھی اس لیے بغیر کسی صلاح مشورے کے کیمرا مین یوسف کے پیچھے چل پڑی۔‘
عفت کے مطابق: ’ہم کچھ تنگ گلیوں میں زگ زیگ ہوئے اور کچہری کے اندر جاپہنچے۔ بس اسی لمحے آخری زور دار دھماکہ سنا اور سناٹا چھا گیا۔ صرف چند منٹ بعد لائیو بیپر دینے ہم عین اس جگہ موجود تھے جہاں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا تھا، یہ جج رفاقت اعوان کی عدالت کے باہر کی گلی تھی۔ میں مائیک اٹھائے پوزیشن لیے کھڑی تھی کہ کیمرا مین یوسف نے کہا آپ نے صرف کیمرے میں دیکھنا ہے نیچے فرش پہ نہیں۔ میں نے جھٹ سے فرش کی طرف دیکھا تو حملہ آور کے جسمانی اعضا پڑے تھے۔‘
’کچھ ہی دیر میں تیز بارش ہوگئی جس دوران عینی شاہدین کے انٹرویو ریکارڈ کیے، ہلاک ہونے والوں کا خون بارش کے پانی میں مل کر پھیل گیا جس سے کچہری کی راہداریاں مزید وحشت ناک ہوگئیں۔ صبح آٹھ بجے سے شام ڈھلنے تک وہیں سے رپورٹنگ کی یہاں تک کہ شام دفتر واپسی پر احساس ہوا کہ پاؤں میں ٹھنڈ لگ رہی ہے، جو دیکھا تو میری سفید جرابیں خون ملے برساتی پانی سے آلودہ تھیں۔‘
ایف ایٹ کچہری حملے میں کیا ہوا تھا
دہشت گردوں نے اس دن کچہری میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ یہ سلسلہ 15 سے 20 منٹ تک جاری رہا۔ حملہ آوروں میں دو خودکش بمبار بھی تھے۔
دہشت گرد تین اطراف سے کچہری میں داخل ہوئے اور جو بھی سامنے آیا ان کی فائرنگ کا شکار ہوتا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے ریڈر ملک خالد نے سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے حملہ آور کو کمرۂ عدالت میں داخل ہوتے اور جج پر فائرنگ کرتے دیکھا تھا۔ جج رفاقت اعوان کو تین گولیاں لگی تھیں جس سے ان کی موت وہیں واقع ہوئی۔ دوسرا خود کش بمبار اس جگہ کیا گیا جہاں وکلا کے دفاتر بنے ہوئے تھے۔
کچہری حملے کی انکوائری رپورٹ کے مطابق ’چادر اوڑھے حملہ آوروں کی تعداد پانچ سے سات کے درمیان تھی جو دو مختلف گروپوں میں کچہری میں داخل ہوئے۔‘
رپورٹ کے مطابق دہشتگردوں کا ہدف غازی عبدالرشید قتل کیس کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست خارج کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان تھے۔
رپورٹ میں درج ہے کہ کچہری میں اس وقت دو سو پولیس اہلکار موجود تھے لیکن کسی نے جوابی کارروائی نہیں کی۔ حملہ آوروں نے فائرنگ کے دوران ایوب نامی شخص کو فون کر کے مزید ہتھیار لانے کا بھی کہا۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق ایف ایٹ کچہری میں پیدل داخلے کے لیے 12 راستے ہیں جبکہ تین بڑے داخلی راستے گاڑیوں کے لیے مختص ہیں۔ رات کو کچہری میں صرف دو سے تین پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
یہاں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو، محکمہ مال، پولیس کی لیگل برانچ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس اور تحصیل داروں کی عدالتوں سمیت 46 عدالتیں ہیں۔
پمز ہسپتال کے چار رکنی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کو تین گولیاں ماری گئیں، دو گولیاں بازو اور ایک سینے پر دل کے قریب لگی۔ ان کی موت اسی گولی سے ہوئی جبکہ دیگر ہلاک ہونے والوں کی موت سینے، جگر، چہرے اور ٹانگوں پر گولیاں لگنے کی وجہ سے ہوئی۔
حملے میں جان سے جانے والی 23 سالہ نوجوان وکیل فضا ملک فوجداری مقدمات کی پریکٹس کر رہی تھیں۔ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد تین مارچ 2014 کو کچہری میں فضا کا پریکٹس کا دوسرا دن تھا۔
ان کے ساتھی سینیئر وکلا نے فضا ملک کی یاد میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود لائبریری کو فضا ملک لائبریری کے نام سے منسوب کیا۔