پشاور کے قصہ خوانی بازار کے نزد کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں خودکش حملے کے نتیجے میں 62 افراد ہلاک جبکہ 194 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل ہیں۔
پولیس کے مطابق دھماکہ خودکش تھا اور پہلے حملہ آور نے گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی اور پھر مسجد کے اندر داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
قصہ خوانی بازار پشاور میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک زمانے میں بیرون ممالک سے آنے والے تاجروں کا مسکن ہوا کرتا تھا، جو یہاں پر قیام کے بعد واپس افغانستان کی طرف روانہ ہوتے تھے۔
اس بازار کا نام بھی تاريخ دانون کے مطابق اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ یہ تاجر یہاں پر قیام کرتے تھے تو یہاں پر قصہ خوان ہوتے تھے اور وہ تاجروں کو قصے سناتے تھے اور تاجر ان کی کہانیوں سے محظوظ ہوتے تھے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس بازار کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی اسی بازار کے احاطے میں مختلف دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ستمبر 2013 میں بھی اسی بازار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں 38 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس وقت دھماکے میں بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔
پشاور کی گلشن کالونی میں بھی 2013 میں شیعہ مسلک کی ایک مسجد پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں کم از کم 14 افراد ہوگئے تھے۔
اسی قصہ خوانی بازار میں 2012 میں بھی ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور اس وقت کے صوبائی سینیئر وزیر بشیر آحمد بلور بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت تھی اور دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے، تو اس وقت 2008 میں اسی کوچہ رسالدار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جمعے کوچہ رسالدار کی مسجد میں جس طرز کا دھماکہ ہوا ہے، اس سے پہلے بھی شیعہ مسلک کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس سے پہلے 2015 میں پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع بڑی امام بارگاہ کو جمعے کے دن نشانہ بنایا گیا تھا جس میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کوچہ رسالدار مسجد کو نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟
شبیر شاہ پشاور کے ایک مقامی چینل ’مشرق ٹی وی‘ کے ساتھ وابستہ ہیں اور 2015 میں حیات آباد میں امام بارگاہ حملے میں مسجد کے اندر موجود تھے لیکن دھماکے میں بچ گئے تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہجس مسجد میں دھماکہ ہوا ہے، یہ پشاور میں شیعہ مسلک کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں پر اہل تشیع کے بڑے علما اور متحرکین آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر شاہ نے بتایا: ’پشاور میں شیعہ مسلک کی 12 مساجد ہیں جس میں یہ مسجد مرکزی مسجد تھی جس کو ماضی میں نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ باقی دو مرکزی مساجد کو پہلے سے شدت پسند نشانہ بنا چکے ہیں جس میں حیات آباد اور عارف حسین مساجد شامل ہیں۔‘
مسجد کو جمعے کے دن کیوں نشانہ بنایا گیا، اس کے جواب میں شبیر شاہ کا کہنا تھا: ’عام دنوں میں اتنا رش نہیں ہوتا لیکن جمعے کو اندرون شہر، صدر اور پشاور کے مختلف علاقوں سے لوگ جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔ خودکش حملہ آور نے پہلی تین صفوں کو نشانہ بنایا جن میں بڑے علما اور متحرکین تھے۔‘
شبیر شاہ کے مطابق اس مسجد میں دو ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور یہ قصہ خوانی کے بالکل وسط میں واقع ہے، جہاں اندورون شہر اور شہر کے دیگر علاقوں سے لوگ جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔
کیا شدت پسند پھر متحرک ہو رہے ہیں؟
پاکستان اور خصوصی طور پر پشاور میں ماضی میں شدت پسندی کی لہر تھوڑی تھم گئی تھی، تاہم اس دھماکے کے بعد مبصرین سمجھتے ہیں کہ شدت پسند پھر سے اتنے منظم ہوگئے ہیں کہ اتنی بڑی کارروائی اب کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ کوچہ رسالدار دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
پشاور پولیس کے مطابق مسجد پر حملے کے حوالے سے کوئی پیشگی خطرے کی اطلاع نہیں ملی تھی اور یہی بات وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی میڈیا سے گفتگو میں کی ہے کہ مسجد کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق یہ دھماکہ بیرون ممالک کی سازشوں کا نتیجہ ہے تاکہ پاکستان کے امن کو سبوتاژ کیا جا سکے۔
رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں صحافی ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسند حملوں کی کوریج کر رہے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اتنی بڑی کارروائی کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ شدت پسند تنظیمیں دوبارہ متحرک ہوگئیں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ تنظیمیں تو پہلے سے متحرک ہیں تاہم پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف مختلف اوقات میں آپریشن کیے گئے ہیں اور بہت سے جگہوں سے ان کا صفایا کیا گیا ہے۔
رفعت نے بتایا: ’اب قبائلی اضلاع میں شدت پسند تنظیموں کا سٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس صورت حال میں بھی اتنی بڑی کارروائی کرنا چاہے کسی بھی تنظیم نے کی ہو، حکومتی اداروں کے لیے تشویش کا مقام ہے۔‘
رفعت نے بتایا کہ صوبے کے آئی جی پولیس اور مختلف اوقات پر حکومتی وزرا نے یہ بات کی ہے کہ داعش، ٹی ٹی پی سے بڑا خطرہ ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس کی تفصیلات شئیر نہیں کی گئی ہیں کہ اس تنظیم کی موجودگی پاکستان میں کتنی حد تک ہے، تاہم جہاں تک ٹی ٹی پی کا تعلق ہے، تو وہ تو افغانستان میں موجود ہے اور پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
رفعت نے بتایا: ’جب پشاور دھماکے کی تفصیلات سامنے آرہی تھیں کہ اس طرح مسجد ہے، جمعے کا دن ہے اور دھماکہ ہوا ہے تو مجھے بالکل دس سال پہلے والا منظر لگ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ حالات دوبارہ نہ ہو جائیں جب ہر جمعے کو کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا تھا۔‘