صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 29 سالہ حرا خان آوارہ جانوروں کے لیے پناہ گاہ ’اینیمل پروٹیکشن حیدرآباد‘ چلا رہی ہیں۔
حرا اس پناہ گاہ میں آوارہ کتوں، گدھوں، بلیوں اور بطخوں سمیت دیگر جانوروں کو کھانے کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔
حرا اور ان کے دوست مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ وہ زخمی آوارہ جانوروں کے ریسکیو کا کام بھی کرتی ہیں۔
حرا ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں اور وہ کمپنی سے ملنے والی تنخواہ جانوروں کے علاج اور ان کے کھانے پینے پر خرچ کرتی ہیں۔ اخراجات کے حوالے سے حرا کے دوست بھی ان کی مالی معاونت کرتے ہیں۔
حرا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے تین سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روز وہ کسی گلی سے جا رہی تھیں جب ان کو ایک گدھا زخمی حالت میں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت انہوں نے اپنے دوستوں کو مدد کے لیے فون کیا اور کہا کہ وہ آتے ہوئے کسی جانوروں کے ڈاکٹر کو ساتھ لے آئیں۔
اس واقعے کے بعد انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ آئندہ سڑکوں پر گھومنے والے آوارہ جانوروں کی خدمت کریں گی اور یوں یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔
حرا کے مطابق: ’ابتدا میں عزیر و اقارب اور دوستوں کے طنز اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے پروا نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک 700 سے زیادہ جانوروں کو ریسکیو کرچکی ہیں جن کا مکمل علاج اور کھانا وغیرہ اپنی مدد آپ کے تحت کیا گیا۔
اس وقت حرا نے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں ایک نجی باڑے کا پورشن کرائے پر لیا ہوا ہے جس میں یہ شیلٹر ہاؤس قائم ہے۔
انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ کچھ ماہ قبل ایک زخمی کتے کو ریسکیو کرنے کے لیے ایک شخص کی کال موصول ہوئی۔
جب وہ اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچیں تو کتے کی حالت دیکھ کر سب رو پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کال کرنے والے شخص نے حرا اور ان کی ٹیم کو بتایا کہ وہ کتا دن رات بھونکتا رہتا تھا اسی وجہ سے محلے کے کسی نامعلوم شخص نے اسے کلہاڑیوں کے وار کر کے مارنے کی کوشش کی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔
حرا نے بتایا کہ ’یہ کتا ایک ماہ تک زخمی رہا جس دوران اس کے سر کے زخموں میں کیڑے پیدا ہوگئے تھے لیکن یہ کتا اب مکمل علاج کے بعد شیلٹر میں رہ رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم کی رجسٹریشن کا عمل آخری مراحل میں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فیس بک پر اینیمل پروٹیکشن حیدرآباد کے نام سے پیج موجود ہے جس پر تمام جانوروں سے متعلق سرگرمیاں اور معلومات اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لوگ ان کے کام کو سراہنے کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی دیتے ہیں۔
حرا فیس بک کے ذریعے عطیات کی اپیل کرتی ہیں، ان عطیات اور حرا کی تنخواہ شامل کرنے سے تنظیم کے امور چل رہے ہیں۔