پاکستان میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے، جو آئے دن غیر یقینی صورتحال میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔
ایک جانب حزب اختلاف کی جماعتوں کی غیر معمولی سیاسی ملاقاتیں، جوڑ توڑ، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور حکومت کے ’جانے‘ کی ڈیڈ لائنز دی جارہی ہیں، وہیں دوسری جانب حکومتی جماعت بھی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ عوامی رابطہ مہم بھی جاری ہے اور اپنے اتحادیوں یا ناراض دھڑوں سے رابطوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا گیا ہے۔
ابھی یہ سب چل ہی رہا تھا کہ تحریک انصاف پنجاب کے اہم ترین رہنما عبدالعلیم خان، جو صوبائی وزیر کے عہدے سے مستعفی ہوکر کافی عرصے سے سیاسی گوشہ نشینی اختیار کیے بیٹھے تھے، گذشتہ روز اچانک منظر عام پر آئے، جس سے پنجاب میں سیاسی صورتحال فیصلہ کن موڑ پر آتی دکھائی دے رہی ہے۔
علیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے، جو اپوزیشن سے رابطوں میں تھا۔ اسی لیے حکومت نے بھی فوری طور پر گورنر سندھ کو ان کے پاس بھیجا اور وہ تحفظات دور کرنے کے لیے متحرک ہوگئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی صورتحال واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ کیا ترین۔علیم گروپ عثمان بزدار کی تبدیلی پر اپنا وزن حکومتی پلڑے میں ڈالتا ہے یا مطالبہ نہ ماننے کی بنیاد پر اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ طے ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کا امکان واضح ہے۔
علیم خان کے اچانک متحرک ہونے کا مقصد؟
پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے پی ٹی آئی کے فعال رہنما عبدالعلیم خان کے اچانک متحرک ہونے کو پنجاب کے ساتھ وفاق میں بھی ’تبدیلی کا پیش خیمہ‘ قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’کئی ماہ پہلے علیم خان نے سینیئر وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور سما ٹی وی خریدنے کے بعد اعلان بھی کیا تھا کہ اب وہ متحرک سیاست نہیں کریں گے لیکن پیر کے روز اچانک ناراض پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین گروپ میں ان کی شمولیت بلاوجہ نہیں۔‘
حسن عسکری کے بقول: ’علیم خان کی گفتگو سے واضح ہے کہ وہ بھی ترین گروپ کی طرح عثمان بزدار کی تبدیلی چاہتے ہیں، اس کے لیے اب اگر پی ٹی آئی قیادت ان کا مطالبہ تسلیم کرکے وزیر اعلیٰ پنجاب تبدیل کر دیتی ہے تو صوبے کی حد تک تو حکومت برقرار رہے گی لیکن اگر عمران خان بزدار کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں تو پھر وزیراعظم کے لیے عہدے پر موجود رہنا مشکل لگتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر۔علیم گروپ کو کافی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور یہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وفاق اور پنجاب میں تبدیلی کا موجب بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سیاسی کشیدگی میں کس طرح صورتحال پر قابو پانے کا راستہ نکالتی ہے۔‘
سینیئر صحافی سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ علیم خان واقعی ’غیر معمولی سیاسی کردار‘ کے لیے منظر عام پر آئے ہیں، جس سے اپوزیشن کی تحریک کو تقویت ملی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اگرچہ جہانگیر ترین اور علیم خان کا مطالبہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی ہے لیکن میری جو ان سے بات ہوئی ہے، اس کے مطابق وہ موجودہ سیٹ اپ میں اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے کی بجائے آئندہ عام انتخابات میں اپنی اور ساتھیوں کے ٹکٹوں کے لیے سنجیدہ ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس بار اگر وزیر اعظم حکومت بچانے کے لیے ان کا مطالبہ مان بھی لیں تو آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی انہیں اہمیت نہیں دے گی۔‘
سلمان غنی کے مطابق: ’جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ اپوزیشن سے مل کر تبدیلی کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے کیونکہ ان کی نمایاں جدوجہد کے باعث اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی ہوئی اور علیم خان کو بھی گرفتار کیا گیا، لہذا وہ اب پی ٹی آئی قیادت پر یقین نہیں کریں گے۔‘
’دوسری بات یہ ہے کہ وزیراعظم کبھی بھی عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کریں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کو پہلے ہی باغی قرار دیا جا چکا ہے اور کوئی رابطے بھی نہیں رہے تھے، لہذا اب اگر وہ ان کے مطالبات مانتے ہیں تو انہیں بھی یقین نہیں کہ یہ گروپ کب تک ساتھ دے گا کیونکہ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔ وزیراعلیٰ بھی تو انہوں نے نامزد کیا ہے، اس لیے اب عمران خان پنجاب میں ان کی مرضی کا وزیراعلیٰ بنا کر اس گروپ پر جوا کھیلنے کو تیار نہیں ہوں گے۔‘
سلمان غنی کا مزید کہنا تھا کہ ’ویسے بھی جلسوں میں تقاریر سے وزیراعظم کا موڈ لگتا ہے کہ انہیں اگر نکالا گیا تو سیاسی طور پر وہ زیادہ مضبوط ہوں گے۔‘
اس ساری صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے صوبائی وزیر یاور بخاری نے کہا کہ ’جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کے مطالبے پر اگر وزیراعظم نے عثمان بزدار کو تبدیل کیا تو پارٹی کے اراکین نئے وزیراعلیٰ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے ایم پی ایز پارٹی قیادت کے ساتھ ہیں۔ جو وہ فیصلہ کریں گے، اس کا ساتھ دیں گے۔‘
یاور بخاری کے بقول: ’اگر ہماری قیادت عثمان بزدار کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے، تب بھی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر ناراض لوگوں کے تحفظات دور کر دیے جائیں تو سیاسی طور پر پارٹی کے لیے حکومت برقرار رکھنا قدرے آسان رہے گا۔‘
حسن عسکری کے بقول: ’اگر وزیراعظم عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کرتے تو پھر صوبے میں وزیراعلیٰ تبدیل تو ہوگا لیکن وہ پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ کسی اپوزیشن جماعت کا ہوگا۔‘
علیم خان کا سیاسی کردار
لاہور کی سیاست میں عبدالعلیم خان کا کردار کافی عرصے سے موجود ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق سے کیا اور لاہور کے شہری حلقے سے 2002کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صوبائی وزارت بھی دی گئی تھی۔
علیم خان کا کاروبار ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناکر پلاٹ فروخت کرنا ہے۔ انہوں نے لاہور ایئرپورٹ کے قریب ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی، جس میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کی انویسٹمنٹ بھی ہوئی اور سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر یہ معاملہ سکینڈل کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی کیس میں علیم خان کو اپنی ہی پارٹی کے اقتدار میں آنے پر بطور سینیئر وزیر پنجاب نیب نے گرفتار بھی کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب 2011 میں پاکستان تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر وہ بڑا جلسہ کیا، جس سے اس جماعت کو نئی سیاسی شناخت ملی تھی، اس کے انتظامات بھی علیم خان کے ذمے تھے۔
اسی جلسے میں انہوں نے باقاعدہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے انہیں لاہور کا صدر بنا دیا۔
2013 میں علیم خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر 2015 کے ضمنی الیکشن میں انہیں ن لیگی رہنما ایاز صادق کے مقابلے میں ٹکٹ دیا گیا، وہ کامیاب تو نہ ہوئے لیکن ڈٹ کر مقابلہ کیا کیونکہ اس حلقے میں دھاندلی کے باعث عدالت نے ایاز صادق کو نااہل قرار دے دیا تھا۔
وہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی این اے 129 سے ایاز صادق کے مقابلے میں دوبارہ مد مقابل آئے، انہیں اس حلقے سے شکست ہوئی لیکن صوبائی نشست پر وہ کامیاب ہوگئے اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب کا مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔
تاہم عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا اور علیم خان کو سینیئر صوبائی وزیر بنایا گیا۔ پھر نیب نے انہیں گرفتار کرلیا، مگر بعد میں انہوں نے فعال کردار ادا کرنا چھوڑ دیا اور چند ماہ پہلے سینیئر وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر سیاسی گوشہ نشینی اختیار کرلی۔
کچھ عرصہ قبل انہوں نے سما ٹی وی خرید کر میڈیا انڈسٹری میں دوبارہ قدم رکھا کیونکہ اس سے قبل بھی وہ ’وقت‘ اخبار کے مالک رہے ہیں۔