بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہاتھوں سے خوردنی تیل نکالنے کا صدیوں پرانا طریقہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔
مقامی لوگ سرسوں سے تیل نکالنے کے لیے مشینری یا پھر بازار میں دستیاب پیکڈ آئل استعمال کرتے ہیں۔
تاہم ضلع پلوامہ کے ٹاؤن پامپور کے 77 سالہ غلام محمد وانی آج بھی روایتی انداز میں خوردنی تیل تیار کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی موت کے بعد یہ قدیم طریقہ بھی ختم ہو جائے گا۔
پچھلی چھ دہائیوں سے اس کام میں مشغول غلام محمد نے یہ کام اپنے والدین اور دادا دادی سے سیکھا تھا۔
انہوں نے یہ کام پانچویں جماعت میں بطور والد کے مدد گار شروع کیا اور آج تک اس سے وابستہ ہیں۔ ’جب تک زندہ ہوں میں کام کرتا رہوں گا۔‘
وہ لکڑی سے بنی روایتی چکی چلاتے ہیں جو بیلوں کی مدد سے سرسوں کے بیجوں سے تیل نکالتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا معمول رہا ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر چکی کا سامان لگانا، بیل کو چکی سے جوڑنا اور تیل نکالنے کے لیے چکی شروع کرنا۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی موت سے ایک صدی پرانی روایت ختم ہو جائے گی کیوں کہ ان کے اہل خانہ سمیت ارد گرد کوئی بھی اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
ان کا خیال ہے کہ مشینوں کے آنے سے اس کام کو دھچکہ پہنچا ہے یہاں تک کہ ان کے خاندان والے انہیں ریٹائر ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔
غلام محمد وانی کے مطابق: ’100 کلو سرسوں کو پروسیس کرنے میں تقریباً تین سے چار دن لگتے ہیں۔ اگر میں پورا دن کام کرتا ہوں تو بمشکل 100-200 روپے کماتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور کچھ کمانے کے قابل نہیں۔ تاہم اس کام کی میرے نذدیک ایک روحانی حیثیت ہے اور میں اسے اپنی آخری سانس تک نہیں روک سکتا۔‘
ان کے مطابق لوگ بازار سے تیل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہاتھ سے نکالے جانے والے تیل کی مانگ کافی کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس قدیم طریقے سے نکالا جانے والا تیل بہترین پیکڈ آئل سے زیادہ معیاری ہوتا ہے۔
’کشمیر میں تیل نکالنے والے (تیلوانی) کو کھوجے (رائل مین) آرٹ کے طور پر سمجھا جاتا تھا، لیکن یہ تاریخی کا ختم ہو رہا ہے۔‘