پوری دنیا میں موجود ایسے افغان سفارت خانوں کو جنہوں نے نئی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اپنے معمولات جاری رکھنے میں مشکلات اور کابل کی جانب سے وفاداریوں میں تبدیلی کے دباؤ کا سامنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مغربی حمایت یافتہ سابق صدر اشرف غنی کی جانب سے تعینات کیے گئے60 یا اس سے زائد سفرا، قونصلرز یا سفارتی مشنوں کے سربراہان میں سے کسی نے بھی سخت گیر اسلامی تحریک کی ملازمت کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔
طالبان کی حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے تاہم عالمی برادری افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے کے راستے تلاش کر رہی ہے جبکہ افغانوں کو درپیش معاشی اور انسانی بحران میں بھی مدد دے رہی ہے۔
ناروے میں سفیر یوسف غفورزئی نے کہا: ’ہماری صورت حال بدقسمتی سے خراب ہے لیکن ہمیں اب بھی ان مشکل حالات میں کام جاری رکھنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’انسانی امداد میں اضافے کی کوشش کے لیے جو بھی ممکن ہو اس سفارت خانوں کو اب بھی بہت اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صورت حال مستحکم کرنے کے لیے سیاسی ٹریک پر بات چیت (میں مدد پر) بھی کام کرنا ہے۔‘
افغانستان کا انحصار طویل عرصے سے مکمل طور پر عطیہ دہندگان پر ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے منجمد کی گئی امداد اور نقد ذخائر آہستہ آہستہ ملک میں واپس آ رہے ہیں لیکن غفورزئی اور ان کے ساتھیوں کا نئی حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور ملازمین کو کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔
امریکہ میں افغان سفارت خانہ اور ان کے قونصل خانے آئندہ ہفتے بند کیے جا رہے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا: ’افغان سفارت خانہ اور قونصل خانے شدید مالی دباؤ میں ہیں انہیں اپنے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔‘
عہدیدار نے کہا: ’(افغان) سفارت خانے اور واشنگٹن نے ’سرگرمیوں کو اس منظم انداز میں بند کرنے کے انتظامات کیے ہیں جس سے امریکہ میں تمام سفارتی مشن املاک کا اس وقت تک تحفظ ہو سکے گا جب تک سرگرمیاں دوبارہ شروع نہیں ہو جاتیں۔‘
دنیا بھر میں افغان سفیر اپنی سرگرمیاں ڈرامائی طور پر کم کرنے، بجلی کے بل اور کھانے کے اخراجات میں کمی لانے اور یہاں تک کہ چھوٹے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ انہوں نے آمدنی حاصل کرنے کے لیے قونصلر فیس میں بھی اضافہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئی دہلی میں سفیر فرید محمدزئی نے اے ایف پی کو بتایا: ’سفارت خانے کو کابل سے کوئی مالی امداد یا فنڈنگ نہیں مل رہی۔‘
ان کے بقول: ’مطلوبہ مالی امداد اور وسائل کی کمی میں ہم کئی مہینوں سے عملے کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکے اور ہمیں اپنا عملہ اور مشن کے اخراجات کو کم سے کم کرنا پڑا ہے۔‘
یہ واضح نہیں ہے کہ ان سفارت خانوں کی جانب سے جاری کردہ ویزے، سرٹیفکیٹس اور دیگر دستاویزات کو طالبان یا عالمی برادری کب تک تسلیم کرے گی۔
کابل میں جاری ہونے والے نئے پاسپورٹ اب بھی ملک کا حوالہ طالبان کی اسلامی امارت افغانستان کی بجائے اسلامی جمہوریہ افغانستان کے طور پر دیتے ہیں جبکہ حکام نے دبئی سفارت خانے کی جانب سے آزادانہ طور پر جاری کردہ ویزے سے پہنچنے والے غیر ملکی صحافیوں کو خبردار کیا ہے کہ شاید مستقبل میں انہیں قبول نہ کیا جائے۔
افغانستان کے قریب چند ممالک میں کچھ سفیروں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے ہیں یا طالبان کے مقرر کردہ نمائندوں نے انہیں نکال دیا ہے لیکن ان کی جگہ لینے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں ستمبر سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔ افغان سرحد کے قریب پشاور میں قونصل خانے کے ایک ذرائع نے بتایا کہ ملازمین ویزا اور پاسپورٹ کی تجدید کی فیس اور شادی کے سرٹیفکیٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی پر گزارا کر رہے ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ طالبان کی جانب سے مقرر کردہ نئے قونصل جنرل کو ماہانہ صرف 50 ہزار روپے (280 ڈالر) ملتے ہیں جبکہ ان کے پیشرو کو تقریباً پانچ ہزار ڈالرز ملتے تھے۔
طالبان نے اپنا پہلا نیا نمائندہ سب سے پہلے پاکستان میں بھیجا جس پر طویل عرصے سے ان کے مقاصد میں مدد کرنے کا الزام تھا۔
بیجنگ میں سفیر نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب طالبان کے وفادار ایک سینیئر سفارت کار کو مقرر کیا گیا جس کی وہ اب غیر سرکاری طور پر قیادت کر رہے ہیں۔
طالبان ازبکستان اور ایران میں بھی اپنے لوگوں کو تعینات کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
روس نے کہا ہے کہ وہ ’دو یا تین‘ نئے سفارت کاروں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ موجودہ سفیر کی جگہ نہیں لیں گے۔
طالبان نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم اس سے قبل وہ افغان سفارت خانوں پر زیادہ تر کنٹرول رکھنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
تاہم وہ اپنے ایک اعلیٰ ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ میں سفیر تسلیم کروانے میں ناکام رہے ہیں اور جنرل اسمبلی نے اس معاملے پر رائے شماری غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
روم میں افغان سفیر اور حال ہی میں برطرف کیے گئے طالبان نواز سفارت کار کے درمیان جھگڑے کے بعد اطالوی پولیس کو مداخلت کرنا پڑی جس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اعلیٰ عہدہ دیا گیا ہے۔
روم میں سفیر خالد زکریا نے کہا: ’ہمارے بعض مشنز میں ناخوش سابق ملازمین کی جانب سے دھمکیاں اور تشدد کیا گیا ہے جو نظریاتی طور پر طالبان کے حامی ہیں۔‘
’طالبان انتظامیہ نے کوشش کی کہ ہمارا سفارت خانہ ان کی جانب سے کام کرنے پر آمادہ ہو جائے لیکن میں نے انکار کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میرا جواب اس وقت تک یہی رہے گا جب تک افغانستان میں ایک جامع نمائندہ حکومت قائم نہیں ہو جاتی جہاں طالبان اس حکومت کا واحد حصہ نہیں بلکہ ایک حصہ ہوں گے۔‘
طالبان نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے مقامی سفارت خانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کابل سے اوسلو اور جنیوا میں وفود بھی بھیجے ہیں۔
جنوری میں اوسلو کے دورے سے قبل انسانی حقوق کا احترام کرنے میں ناکامی پر افغان سفارتی مشنوں خصوصاً مغرب کے مشنز نے متحد ہو کر طالبان پر کھل کر تنقید کی تھی۔
ناروے میں سفیر غفورزئی نے کہا: ’یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں ایسے لوگوں کی نمائندگی جاری رکھنی ہے جنہوں نے اپنی پوری تاریخ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔‘