قبائلی اضلاع میں ’عدالتی اختیارات ڈپٹی کمشنر کو دینا زیادتی‘

خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنرز کو پولیس کے کچھ اختیارات دیے ہیں جس پر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان سے مختلف برتاؤ کرتی ہے۔

درہ آدم خیل میں پولیس کی جانب سے سڑک بند  کرنے کی یہ تصویر 14 فروری، 2008 میں لی گئی تھی (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنرز کو پولیس کے کچھ اختیارات دیے ہیں جن پر قبائلی اضلاع کے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت قبائلی اضلاع کے ساتھ دیگر اضلاع سے مختلف برتاؤ کرتی ہے۔

یہ اختیارات کریمنل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ اے22 کے تحت دیے گئے، جس کے تحت تمام قبائلی اضلاع اور سابقہ فرنٹیئر ریجن کے ڈپٹی کمشنرز کو ’جسٹس فار دی پیس‘ مقرر کیے گیا ہے۔

اس دفعہ کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو ’جسٹس فار دی پیس‘ مقرر کر سکتی ہے اور ان کے پاس پولیس کے کچھ اختیارات ہوں گے۔

جسٹس فار دی پیس کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟

کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 22A کے تحت جسٹس فار دی پیس کے پاس کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

اس دفعہ کے تحت جسٹس فار دی پیس کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی کو گرفتار کر کے پولیس کے سامنے پیش کرے۔

اسی طرح کسی ایسے ملزم، جس نے کوئی جرم کیا ہو، اور اس کے بھاگنے کا خطرہ ہو تو جسٹس فار دی پیس اس ملزم کو گرفتار کر سکتا ہے جبکہ یہ کسی بھی شخص کو گرفتاری کے لیے پولیس کو کسی بھی وقت بلا سکتے ہیں۔

اس دفعہ کے تحت جسٹس فار دی پیس کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی جرم کی تفتیش کرے اور اس کی رپورٹ متعلقہ پولیس سٹیشن یا پولیس آفیسر کو پیش کرے۔ 

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور قبائلی اضلاع کے آئینی اور قانونی معملات پر نظر رکھنے والے فرہاد آفریدی کہتے ہیں کہ جسٹس فار دی پیس کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی بندہ ان کے پاس شکایت لے کر آئے کہ فلاں پولیس سٹیشن ان کا مقدمہ درج نہیں کرتا، تو جسٹس فار دی پیس متعلقہ پولیس سٹیشن کو شکایت کنندہ کی درخواست اور اس پر عمل کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔

فرہاد آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کریمنل پروسیجر ایکٹ کے تحت پورے ملک میں یہ قانون نافذ ہے لیکن پورے ملک میں یہ اختیارات سیشن جج یا ایڈشنل سیشن جج کے پاس ہوتے ہیں اور کسی جگہ پر بھی یہ اختیارات بیوروکریسی کے سپرد نہیں کیے جاتے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بھی ہیں جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جسٹس فار دی پیس کے اختیارات انتظامی نہیں بلکہ نیم عدالتی ہیں اس لیے یہ اختیارات سیشن جج اور ایڈیشنل سیشن جج کے پاس ہونے چاہییں۔‘

کریمنل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 54 کے تحت جس طرح پولیس کو بعض حالات کی مناسبت سے بغیر وارنٹ کے کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح جسٹس پر دی پیس کو بھی بغیر وارنٹ کے گرفتاری کا اختیار حاصل ہوگا۔

اس میں ایک صورتحال یہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی کے خلاف کسی نے شکایت کی ہو اور ان کے ثبوت بھی موجود ہوں، تو ڈپٹی کمشنر ان کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کر سکتا ہے۔

اس ایکٹ کے مطابق قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کسی اشتہاری ملزم کو بھی بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان فوج سے بھاگنے والے شخص کو بھی بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

فرہاد آفریدی کے مطابق ’قبائلی اضلاع میں خصوصی طور پر یہ اختیارات ڈپٹی کمشنرز کو سپرد کرنا قبائلی اضلاع کے افراد  کے ساتھ زیادتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اب بھی قبائلی اضلاع کے لوگوں کو باقی ملک کے شہریوں سے الگ سمجھتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اگر یہ اتنا اچھا قانون ہے تو اس کو باقی اضلاع میں بھی نافذ کیا جائے۔ صرف قبائلی اضلاع میں اختیارات ڈپٹی کمشنرز کے سپرد کرنے کا یہی مطلب ہے کہ قبائلی اضلاع کو ضم ہونے کے باجود دیگر ملک سے الگ سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے سے وہاں کے عوام میں بے چینی پھیل جائے گی۔‘

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اے این پی قبائلی اضلاع کو درست انداز سے قومی دائرے میں لانے پر یقین رکھتی ہے اور تمام انتظامی، مالی اور عدالتی اختیارات قبائلی اضلاع کو پھیلانے پر زور دیتی ہے۔

ایمل ولی نے بتایا کہ ’قبائلی اضلاع کے لوگوں کے ساتھ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت جو وعدے کیے گئے ہیں ان پر بلا کسی تعطل کے من و عن عمل کرنا ضروری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو عدالتی اختیارات دینا 25ویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے اور قبائلی اضلاع کے لوگوں کے ساتھ ظلم ہے۔‘

اسی طرح شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کو تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے جہاں ضم ہونے کے باوجود تجربات کیے جاتے ہیں۔

محسن داوڑ کے مطابق اس سے پہلے صوبائی حکومت نارمل عدالتی نظام کے بجائے آلٹرنیٹ ڈیسپیوٹ ریزلوشن کونسل کے نام سے ایک قانون پاس کیا تھا اور اب ڈپٹی کمشنرز کو پولیس اختیارات دیے جا رہے ہیں جو ’سراسر زیادتی‘ ہے۔

’اس فیصلے کے حوالے سے قبائلی اضلاع سے منتخب اسمبلی کے اراکین کے ساتھ کسی قسم کی بحث نہیں کی گئی اور نہ ہمیں اس سارے فیصلے میں شامل کیا گیا ہے۔ ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ قوتیں اس کوشش میں ہیں کہ قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے فیصلے کو واپس کیا جائے۔‘

قبائلی اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو پولیس کے کچھ اختیارات دینے کے فیصلے پر انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی ترجمان بیرسٹر علی سیف سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔

بیرسٹر سیف کے پبلک ریلیشنز آفیسر رضوان ملک سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی جس پر انہوں نے کہا کہ جلد وہ صوبائی حکومت کا موقف بھیج دیں گے لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے موقف موصول نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان