نو مارچ 2022 کو پاکستان میں گرنے والے بھارتی میزائل کے بارے میں پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ عمل غلطی نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے میاں چنوں میں آن گرنے والے بھارتی میزائل سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا البتہ ایک ہوٹل اور مکان متاثر ہوا تھا۔ بھارت نے ایک بیان میں کہا کہ میزائل حادثاتی طور پر فائر ہو گیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی بیان مسترد کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ اس واقعے کی جانب مبذول کرائی ہے۔
بھارت کی جانب سے میزائل فائر ہونے کو حادثہ قرار دینے پر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں مثلاً میزائل کو داغنے کے دوران کون سے اقدامات کار فرما ہوتے ہیں؟
اگر میزائل غلطی سے فائر ہو جائے تو اسے ہوا میں روکا جا سکتا تھا؟ ایک بار ٹارگٹ لاک ہونے اور فائر کرنے کے بعد کیا سمت تبدیل کی جا سکتی ہے، یا اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
ان تکنیکی سوالات کے جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پالیسی اور نیوکلیئر امور کے ماہر سید محمد علی سے رابطہ کیا جو سینٹر آف ایروسپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔
ان کے مطابق ’یہ میزائل اگر مِس فائر تھا تو بھارت کو چاہیے تھا کہ پاکستان کو بروقت آگاہ کرتا تاکہ اسے سرپرائز اٹیک نہ سمجھا جاتا بلکہ مس فائر مانا جاتا۔‘
میزائل کی مختلف اقسام
محمد علی نے بتایا کہ میزائل کی بہت سے قسمیں ہوتی ہیں۔ سمندر سے سمندر، فضا سے زمین، زمین سے زمین، زمین سے فضا اور سمندر سے زمین پر مار کرنے والے میزائل۔
ہر میزائل کے اپنے طریقہ کار اور حفاظتی اقدامات موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضا سے فضا میزائل جو دشمن کے جہاز کو گرانے کے لیے لانچ ہوتا ہے، اس کی سیفٹی سکیورٹی مختلف ہوتی ہے کیوں کہ اس کا ہدف صرف طیارہ ہو گا۔
’لیکن ایک ایسا میزائل جو پورے شہر کو تباہ کر سکتا ہے اس کی سیفٹی سکیورٹی مختلف اور زیادہ حساس نوعیت کی ہو گی۔‘
پالیسی اور نیوکلیئر امور کے ماہر نے بتایا کہ ایک ایسا میزائل جس میں ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت ہو، اسے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار کہا جاتا ہے۔
ان کے مطابق: ایسے ہتھیاروں کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ کسی ایک شخص کے کنٹرول سے وہ لانچ نہ ہو پائے۔
’ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص نے بٹن دبایا اور میزائل لانچ ہو گیا بلکہ اس کے آٹھ دس مختلف مراحل ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس میں قانونی اور آپریشنل پروٹوکول بھی ہوتے ہیں۔ میزائل کا بِلٹ اِن سسٹم اس انداز میں ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ اس کے کوڈز مختلف ذمہ دار عہدے داران کے پاس ہوتے ہیں جب تک وہ کوڈ اکٹھے کر کے فیڈ نہیں کیے جاتے میزائل لانچ نہیں ہو سکتا، اسے لانچ پروٹوکول کہا جاتا ہے۔
محمد علی کے مطابق لانچ کوڈ کسی ایک شخص کے پاس نہیں ہوتے۔ ’ذمہ دار ایٹمی طاقتوں میں ملک کے سربراہ سے تحریری اجازت لینے کے بعد دو تین ذمہ داران افسران کوڈ اکٹھا کرتے ہیں اور پھر میزائل لانچ کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔‘
کیا فائر کے بعد میزائل کو روکا جا سکتا ہے؟
محمد علی نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دو طرح کے میزائل ہیں۔ ایک کروز میزائل ہوتا ہے اور ایک بیلسٹک۔
بیلسٹک میزائل کی رفتار کروز میزائل سے تیز ہوتی ہے، جو ایک نظام کے تحت چلتا ہے۔ جب اسے چلایا جاتا ہے تو اس میں باقاعدہ ہدف کا پتہ ڈالا جاتا ہے تاکہ میزائل ہدف کو ہٹ کرے۔
انہوں نے کہا کہ کروز میزائل کی پوری پرواز کنٹرولڈ ہوتی ہے جبکہ بیلسٹک میزائل فائر ہوتا ہے تو دورانِ پرواز راکٹ موٹر گر جاتی ہے اور وار ہیڈ ہی ہدف تک جاتا ہے۔
انہوں نے فائر ہونے کے بعد کروز میزائل کو روکنے سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ میزائل فائر کرنے والے عہدے دار اسے دورانِ پرواز کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کروز میزائل کو فائر کرنے والی ٹیم اسے دورانِ پرواز تباہ کر سکتی ہے اور اگر میزائل میں کوئی تکنیکی غلطی سامنے آئے تو اس کے اندر خودکار تباہ کاری کا نظام بھی ہوتا ہے جو بوقت ضرورت کام آتا ہے۔
اس کے علاوہ کروز میزائل تقریباً جہاز کی طرح سفر کرتا ہے، جو سمت اس کے سسٹم میں شامل ہے وہ اُدھر ہی جائے گا۔
ان کے مطابق یہ کہنا کہ میزائل غلطی سے پاکستان میں آیا تو یہ تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ میزائل میاں چنوں میں اس لیے گرا کیوں کہ اس میں میاں چنوں کی سمت کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا تھا۔
بھارت سے داغا جانے والے میزائل غیر مسلح (بغیر وار ہیڈ) تھا، لیکن اگر یہ مہلک ہوتا تو اس سے کتنی تباہی پھیلتی؟
اس سوال کے جواب میں محمد علی نے بتایا کہ اگر میزائل میں ایٹمی وار ہیڈ ہوتا تو میاں چنوں شہر مکمل تباہ ہو جاتا۔
ٹیسٹنگ کے دوران میزائل ملکی سرحد عبور کر جائے تو کیا یہ حدود کی خلاف ورزی نہیں؟
اس پر انہوں نے کہا کہ یہ ٹیسٹنگ نہیں تھی اور اگر بالفرض ہے بھی تو میزائل نے سرحد پار ہدف طے ہونے پر کی جو یقینی طور پر حدود کی خلاف ورزی ہے، اسی لیے پاکستان نے اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے۔
پاکستان کے پاس میزائل روکنے کے کیا آپشنز تھے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جب یہ بتا دیا کہ وہ بھارت کے اندر سے اس میزائل کو مانیٹر کر رہے تھے اور وقت بھی بتا دیا کہ کتنی دیر وہ پاکستانی حدود میں آیا تو یہ بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگی حالات میں جب ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک سے دوسری ایٹمی طاقت کی طرف میزائل فائر کرتا ہے تو ایٹمی جنگ کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
’چوں کہ ابھی جنگی حالات نہیں تھے۔ جنگی بندی معاہدہ بھی چل رہا ہے ایسے حالات میں حکمت عملی مختلف ہوتی ہے اور سفارتی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔‘
محمد علی نے کہا کہ باقی پاکستان کے پاس کیا تکنیکی آپشن ہیں تو یہ ایک حساس بات ہے جسے کبھی بھی عام نہیں کیا جا سکتا۔ ’کوئی بھی ملک اپنی جنگی حکمت عملی ظاہر نہیں کرتا۔‘
اگر میزائل کا رخ کسی حساس تنصیب کی طرف ہوتا تو اس صورت میں کیا ایس او پیز ہیں؟
اس سوال کے جواب میں محمد علی نے کہا کہ پاکستان میزائل کو مانیٹر کر رہا تھا اور اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتی تو پاکستان کا ردعمل مختلف ہو سکتا تھا۔
’ایس او پیز کیا ہیں، یہ سب حساس اور کلاسیفائیڈ معلومات ہیں جو قومی راز کے زمرے میں آتی ہیں۔‘
واقعے پر بھارتی بیان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جیسے بھارت نے کہا کہ یہ غلطی ہے تو یہ بھارت کی بہت تباہ کن غلطی ہے اور ایسا ردعمل بہت غیر ذمہ دارانہ ہے۔
’جب تک پاکستان نے معاملہ نہیں اُٹھایا بھارت چپ سادھے رہا لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ اور دفتر خارجہ کے مراسلے کے بعد بھارتی وزارت دفاع نے بیان جاری کیا۔
’یہ بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہی ہے کہ جب اُن کو علم تھا کہ غلطی ہو گئی تو اسی وقت ہاٹ لائن کے ذریعے پاکستان سے فوری رابطہ کرتے اور بروقت اطلاع کرتے۔‘ انہوں نے ’غلطی کے بعد‘ اور پاکستان کے ردعمل سے پہلے بھارت کی خاموشی کو معنی خیز قرار دیا۔
’میں سمجھتا ہوں کہ اس میزائل کو لانچ کرنے کا مقصد پاکستان کے دفاعی نظام، ریسپانس ایکشن، سفارتی ایکشن اور میڈیا ایکشن کو چیک کرنا تھا جس کے لیے ایک ٹیکنیکل غلطی کا بہانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
بھارت کی جانب سے داغے جانے والے میزائل کے بارے میں دفاعی ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ براہموس میزائل تھا۔
محمد علی کے مطابق برہموس کروز میزائل روس اور بھارت کا مشترکہ منصوبہ ہے تو یہ روس کے لیے بھی پریشان کُن بات ہے کہ اس کے اشتراک سے بننے والا میزائل محفوظ ہاتھوں میں نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بھارت کا سٹریٹجک پروگرام انتہائی غیر محفوظ ہے۔ وہ ممالک جو بھارت کو میزائل اور نیوکلئیر ٹیکنالوجی دے رہے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کے سٹریٹجک پروگرام کا سیفٹی ریکاڑد چیک کریں اور اس واقعے پر بھارت سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے وضاحت طلب کریں۔
یہ میزائل بھارتی ریاست ہریانہ کے مقام سرسا سے فائر ہوا اور 260 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے میاں چنوں میں گرا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے واقعے کے بعد اپنی میڈیا بریفنگ کو ابتدائی بیان میں بتایا کہ پاکستان ایئر فورس نے لانچ سے لے کر گرنے تک میزائل کی پوری پرواز کو بروقت مانیٹر کیا۔ ڈی جی آئی ایس پر آر کے مطابق یہ ایک سپر سونک پروجیکٹائل تھا جو ممکنہ طور پر میزائل تھا اور غیر مسلح تھا۔
’یہ آبجیکٹ ابھی بھارت میں 100 کلو میٹر اندر تھا تب ہی ہم نے اسے نوٹس کر لیا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود میں وہ چیز تین منٹ اور چند سیکنڈ تک رہی اور 260 کلومیٹر اندر تک سفر کیا، اس کے خلاف ضروری کارروائی بروقت کرلی گئی تھی۔'
پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی بھارتی سفارت کار کو بلا کر اس معاملے پر احتجاج کیا اور وضاحت طلب کی، جس کا بھارت نے تاحال کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔
پاکستان نے بھارت کو سات سوالوں کا مسودہ بھارت کو بھجوایا ہے، جس میں بھارت کے میزائل پروگرام کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس معاملے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی خط لکھا ہے اور بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ وہ ان کے بیان سے مطمئن نہیں اور چونکہ میزائل پاکستان میں گرا ہے اس لیے اس کی یک طرفہ نہیں بلکہ مشترکہ تفتیش کی ضرورت ہے۔
تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کی مل کر اس واقعے کی تحقیقات کا امکان بہت کم ہے۔