’جب خیبر پختونخوامیں آئے روز دھماکے ہوتے تھے اور امن وامان کی صورتحال مخدوش تھی تو یہی پشاور کے صحافی ان چینلوں کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن رات کوریج کیا کرتے تھے لیکن اب جب حالات بہتر ہوگئے ہیں تو ہمیں چینلوں سے نکالا جا رہا ہے‘۔
یہ کہنا تھا24 نیوز چینل کے پشاور میں بند ہونے والے دفتر کے بیورو چیف عالمگیر خان کا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ چینل مالکان نے خراب معاشی صورتحال کی وجہ بتا کر تقریبا 12 ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔
پشاور میں 24 نیوز چینل کی بندش سے پہلے کیپیٹل ٹی وی کا پشاور دفتر بھی اس مسئلے سے دوچار رہا۔ اس کے زیادہ ترملازمین کو فارغ کرتے ہوئے باقی عملے کو ایک کرائے کے کمرے سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کچھ مہینے پہلے پشاور ہی میں روزنامہ ایکسپریس نے درجنوں ملازمین کو فارغ کردیا تھا جبکہ انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون نے پشاور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں اپنے بیورو دفاتر بند کردیے ہیں۔ اسی طرح چند مہینے پہلے جیو اور جنگ گروپ نے پشاور میں صحافیوں سمیت 40 سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا تھا۔
عالمگیر نے بتایا کہ پشاور ایک چھوٹا شہر ہے جہاں پرمقامی چینلز کے علاوہ کسی بھی میڈیا ادارے کا صدر دفتر واقع نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں میڈیا میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صرف پشاور نشانے پر کیوں؟
میڈیا اداروں نے پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ملازمین کو نکالا ہے تاہم ان شہروں میں ان کے بیورو دفاتر اب بھی موجود ہیں۔
پشاور اور قبائلی اضلاع بین الاقوامی میڈیا سمیت قومی میڈیا کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور زیادہ تر اہم خبریں انہی علاقوں سے سامنے آتی ہیں، اس سب کے باوجود پشاور ہی زیر عتاب دکھائی دیتا ہے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر فداخٹک نے اس کی بنیادی وجہ پشاور سے میڈیا اداروں کو بزنس نہ ملنا بتائی ۔ وہ کہتے ہیں: ’اخبارات کو کچھ نہ کچھ اشتہارات مل جاتے ہیں لیکن ٹی وی چینلز کو سرکاری یا نجی اشتہارات نہ ملنے کے برابر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’میڈیا کے معاشی بحران‘ میں زیادہ تر بیورو دفاتر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔’ہم نے حکومت کو بتایا ہے کہ جن اداروں نے صحافیوں کو نکالا ہے ان کے اشتہارات بند کیے جائیں یا ان کو تنبیہ کی جائے کہ ملازمین کو دوبارہ بحال کریں۔ اس حوالے سے حکومت کا مثبت پیغام ملا ہے‘۔
پاکستان میں میڈیا اداروں کا زیادہ تر انحصار حکومتی اشتہاروں پر ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کے اروڑہ میگزین کے مطابق 2016-17 میں اشتہارات کا حجم621 ملین ڈالرزسے کم ہوکر 2017-18میں578 ملین ڈالرز تک گر گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق اسی کو بنیاد بنا کر اب تک پورے پاکستان میں آٹھ سو سے زائد صحافیوں اور4000 تک دیگر ملازمین کو میڈیا اداروں سے فارغ کیا گیا۔
’خیبر پختونخوا سے ریٹنگ نہ ہونے کے برابر‘
پشاور میں ایک بڑے میڈیا گروپ کے ماریٹنگ دفتر میں کام کرنے والے ملازم نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا سارے میڈیا اداروں نے پشاور کو کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے بعد تیسری کٹیگری میں ڈالا ہے کیونکہ یہاں سے اشتہارات اور ویورشپ نہ ہونے کے برابر ہے۔
’ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ صرف لاہور شہر میں 60 سے زائد کیبل آپریٹرز ہیں اور ہر ایک کے پاس 30 ہزار سے زائد صارف ہیں جبکہ پشاور میں صرف دس آپریٹرز کے پاس کے ساتھ چار سے پانچ ہزار کسٹمر جسٹررڈ ہیں۔
انھوں نے ٹی وی ریٹنگ کے بارے میں بتایا کہ خیبرپختونخوا کے شہروں پشاور، کوہاٹ اور مردان میں ٹی وی ریٹنگ ناپنے والے آلے یا میٹرز لگائے گئے ہیں، جس سے حاصل ہونے والی ریٹنگ کا چینلز کے مجموعی ریٹنگ پوائنٹس پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور یہی وجہ ہے یہ علاقے چینلز کے لیے بزنس کے حوالے سے اتنا اہم نہیں سمجھے جاتے۔
اس سارے صورتحال پر انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے موقف لینے کی کوشش کی لیکن جب ان سے صحافیوں کی برطرفی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فون بند کردیا۔