مئی 1974 میں ہونڈا والوں نے دو بندے جاپان سے پاکستان صرف اس لیے بھیجے کہ یہاں کس قسم کی موٹر سائیکل کامیاب ہو سکتی ہے۔
وہ لوگ پہلے تھائی لینڈ، ملائیشیا، ایران، انڈونیشیا اور فلپائن سے پھیرا مار کے آئے تھے۔ جو کچھ انہوں نے ان سب ملکوں میں دیکھا وہ ادھر جاپان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
’یہ ایک نارمل بات ہے کہ وہاں بچہ ٹینکی پہ بیٹھا ہو اور بیوی پچھلی سیٹ پہ، چوتھا بندہ بھی اپنی جگہ نکال لیتا ہے۔ کچھ لوگ تو سبزی، گوشت اور باقی سودا سلف ہینڈل سے لٹکائے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ میں نے موٹرسائیکل کو وہاں گدھا گاڑی کی جگہ استعمال ہوتے بھی دیکھا ہے۔‘
یہ بیان اس بندے نے ہونڈا والوں کو دیا جو ہمارے جیسے ملکوں کے لیے موٹر سائیکل بنانے والے ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ تھا۔ پھر کہنے لگا ’وہ لوگ اس وقت تک تیل نہیں بدلتے جب تک پتلا پانی نہ ہو جائے یا کہیں جل جلا کے اڑ جائے۔ ائیر فلٹر بدلنے کا دور دور تک کوئی تصور نہیں اور چین جب تک کور سے ٹکرا کے ٹوٹ نہ جائے وہ لوگ کبھی اسے نہیں بدلتے۔ ایک کے بعد دوسرے کے بعد تیسرا، ہم نے ایسا ایسا منظر دیکھا جو ادھر جاپان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
ہونڈا 125 سے پہلے تین ڈیزائن آتے تھے۔ 1968 میں سی ایس 90 ، 1969 میں سی بی 100 اور 1973 میں ایس 110۔ ان سب کو برابر دیکھ بھال چاہیے ہوتی تھی، مار نہیں کھاتے تھے اور ہونڈا ترقی پذیر ملکوں میں اپنا شئیر تیزی سے گرتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
جب یہ صورتحال ریسرچ ہیڈ کو بتائی گئی تو انہوں نے فوراً کہا ’مجھے ایک گراف پیپر، کمپاس اور کچھ جیومیٹری والی چیزیں دو۔‘ صبح وہ بندہ ایک نئے انجن ڈیزائن کے ساتھ دفتر آ گیا۔ ادھر جو موٹر سائیکل ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ تھا، اس نے بھی ایک لائٹ ویٹ اور کم دیکھ بھال والے انجن کی ڈرائنگ اگلے دن لا کے سامنے رکھ دی۔ دونوں ڈیزائن دیکھے گئے اور بالاخر اسی بندے کا انجن منظور ہوا جو پاکستان سے ہو کے گیا تھا۔ وہ او ایچ وی انجن تھا جو ہونڈا 125 میں آج تک چل رہا ہے۔
اگلا پورا ایک سال آٹھ پوائنٹس پر فوکس تھا ہونڈا والوں کا۔
- انجن کی فیول ایوریج اچھی ہو
- مار کھانے والا انجن ہو
- ڈیزائن مکمل پریکٹیکل ہو اور وہی سب چیزیں ممکن ہوں جن کے یہ لوگ عادی ہیں
- پوری موٹر سائیکل کی دیکھ بھال آسان ہو
- فریم ایسا ہو جو چار بندے بھی برداشت کر سکے
- پیٹرول کی ٹینکی ایسی ہو کہ بچہ آرام سے بیٹھ سکے
- موٹر سائیکل کا رنگ اور سٹیکر ایسے ہوں کہ پاکستانیوں کو پسند آئیں
- سیٹ لمبی ہو، دو کی بجائے ایک ہو اور پیچھے کیرئیر بھی ہو تاکہ فالتو سامان رکھا جا سکے
دسمبر 1974 میں انجن کی فائنل شکل سامنے آئی اور اسے جاپانی مستریوں کے سامنے رکھا گیا کہ اسے کھولیں اور دوبارہ بند کر دیں۔ پورا انجن کھولنے کے بعد آدھے گھنٹے میں بغیر کسی کے سکھائے وہ پورا انجن باندھ چکے تھے۔ یہ ایک اور نشانی تھی کہ انجن مارکیٹ والوں کو سمجھ آ جائے گا تو کامیاب ہو ہی جائے گا۔
تھائی لینڈ اور بنکاک کی گرمیوں میں موٹرسائیکل کچے راستوں پہ دوڑائی گئی تاکہ انجن کے گرم ہونے اور دھول مٹی سے خراب ہونے والے مسئلے چیک کیے جا سکیں، پیٹرول بھی ہر جگہ سے ڈلوا کے دیکھا کہ کچرے وغیرہ کا مسئلہ تو نہیں ہوتا۔ سب کچھ کرنے کے بعد 1975 میں ہونڈا سی جی 125 کو مارکیٹ میں پیش کر دیا گیا۔ 1992 میں ہونڈا 125 پاکستان میں بھی بننا شروع گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہونڈا 125 کے ٹنکی ٹاپے اور باقی ڈیزائن 1975 سے اب تک بہت زیادہ کیوں نہیں بدلے؟
اس سوال کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ 2008 کے بعد جاپان میں یہ موٹر سائیکل بننی ہی بند ہو گئی۔ چین، پاکستان، تھائی لینڈ وغیرہ میں اب بھی بنتی ہے۔ جو بھی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ہونی ہے وہ یہیں ہونی ہے اور یہاں کیا آپ کے خیال میں حالات 1974 سے اب تک کچھ بدلے نظر آتے ہیں؟ جو کچھ ہمارے یہاں موٹرسائیکل سے کام لیا جاتا ہے اس سب کے درمیان کوئی بھی بڑی تبدیلی ایک دم ڈیزائن اور پوری 125 کو ناکام کر سکتی ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہونڈا 125 یوٹیلیٹی موٹر سائیکل کیٹیگری میں آتی ہے اور اس کا سٹینڈرڈ ڈیزائن یہی ہوتا ہے۔ موٹرسائیکلوں کی چھ سات دوسری قسمیں ہیں۔ ٹریل جو کچے راستوں پہ دوڑتی ہے، کروزر جو ہیوی بائیک ٹائپ چیز ہوتی ہے لمبے سفروں کے لیے اور ریسنگ موٹر سائیکلیں الگ ہوتی ہیں۔
اب 125 یا 70 کے علاوہ باقی ساری ہیوی موٹرسائیکلیں اٹھا کے دیکھ لیں۔ کہیں مہنگے پارٹس کا مسئلہ ہو گا، کہیں فیول ایوریج کم ہو گی، کہیں آپ چار بندے اکٹھے نہیں بٹھا سکیں گے اور بہرحال نخرے اتنے ہوں گے ان موٹر سائیکلوں کے، کہ بندہ موٹر سائیکل نہیں چلائے گا موٹر سائیکل بندہ چلا رہی ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو جسے شوق ہے کہ 125 سے ہیوی بائیک یا سپورٹس موٹرسائیکل یا ٹریل والا کام لیا جائے تو ظاہری بات ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا، اس کے لیے پیسے ڈھیر سارے خرچنے پڑیں گے۔
جو 125 کو یوٹیلٹی موٹرسائیکل کے طور پہ خریدتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس سے کیا کیا کام لیے جا سکتے ہیں اور یہ موٹر سائیکل کس قسم کے صارفین کو دماغ میں رکھ کے بنائی گئی ہے۔
کمپنی یہ جانتی ہے کہ یوٹیلٹی موٹرسائیکل ڈیزائن میں کوئی بھی نئی چیز شامل کرنا یا تبدیلی کرنا چنگی بھلی چلتی مارکیٹ کو چھیڑنے والی بات ہو گی۔
کم سے کم پرزوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وزن کھینچنا، سامان رکھنے کی جگہ ہونا، انجن کو کم سے کم دیکھ بھال درکار ہونا اور ایک موٹر سائیکل پہ ساری فیملی کا آنا جانا ممکن بنا لینا، یہ سارے پوائنٹ پاکستانی موٹر سائیکل مارکیٹ میں ایک عام آدمی کی ضرورت ہوتے ہیں۔
جب تک یہ ضرورت باقی ہے تب تک چاہے وہ ہونڈا ہو، سوزوکی چاہے کوئی چینی یوٹیلٹی موٹرسائیکل، ان سب کے بنیادی ڈیزائن ایسے ہی رہیں گے۔