پاکستان کی قومی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف نے مختصر دورانیے کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر دی ہے جس پر مزید بحث 31 مارچ کو ہو گی۔
قومی اسمبلی کا پیر کو ہونے والا اجلاس تقریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو حکومتی بینچز پر تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمان میں سے کوئی بھی ایوان میں نظر نہیں آیا، جبکہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین میں سے بھی کوئی چہرہ اجلاس میں موجود نہیں تھا۔
اجلاس شروع ہوتے ہی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ایجنڈے پر موجود آئٹم نمبر چھ اٹھایا جس پر حزب اختلاف کے اراکین نے شور شرابا کیا۔
تاہم ڈپٹی سپیکر نے اس کے بعد وفاقی وزیر بابر اعوان کو عدم اعتماد پر کارروائی شروع کرنے کے لیے ایوان سے کارروائی کا سوال و جواب سے متعلق حصہ ختم کرنے کی اجازت طلب کرنے کو کہا۔
ایوان سے اجازت ملنے پر کرسی صدارت نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی شروع کی۔
شہباز شریف نے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی تو ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ جو ارکان اس کے حق میں ہیں وہ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو جائیں تاکہ گنتی کی جائے۔
گنتی کا عمل شروع ہوا تو حزب اختلاف کے 161 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی۔
اس موقع پع سینیئر صحافی احمد منصور کا کہنا تھا کہ ’متحدہ حزب اختلاف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ایک مرحلہ سر کر لیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایوان میں موشن کے حق میں کھڑے اراکین اسمبلی کی گنتی کے دوران حکومتی نشستوں پر موجود تحریک انصاف کے چند ایک ایم این ایز متواتر نعرے بازی کرتے رہے۔
ان نعرے بازی کرتے حکومتی ارکانِ پارلیمان کو پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم اورنگ زیب بار بار ہاتھ کے اشاروں سے اپوزیشن بینچز پر آنے کی دعوت دیتی رہیں۔
عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کی اجازت ملنے پر کرسی صدارت سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو عدم اعتماد کی قرارداد ایوان کے سامنے رکھنے کو کہا گیا۔
شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف چار پانچ سطور پر مشتمل عدم اعتماد کی قرارداد پڑھی، جس کے فوراً بعد ہی ڈپٹی سپیکر نے اجلاس جمعرات تک ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔
قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران حزب اختلاف کے تمام اہم رہنما موجود تھے، جبکہ دوسرے اراکین بھی بڑی تعداد میں حاضر تھے۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی نوابزادہ شاہ زین بگٹی بھی اپوزیشن بینچز پر نظر آئے، جبکہ پیر کو ہی انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کے نام خط میں حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
حزب اختلاف نے پابند سلاسل رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی نشست پر ان کی بڑی پورٹریٹ رکھی تھی جبکہ دوسری طرف حکومتی نشستوں پر اہم افراد میں درجن بھر وفاقی وزرا شامل تھے۔