منگل کو دئیے گئے روسی بیان کے مطابق یوکرین کے دارالحکومت کیئف اور ایک شمالی شہر کے قریب کارروائیاں’نمایاں طور پر‘ محدود کر دی جائیں گی۔
جب کہ روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں تباہ کن اور وحشیانہ جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ معاہدے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوس ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق روس کے نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومن کا کہنا تھا کہ روسی اقدام کا مقصد مذاکرات میں اعتماد کا فروغ ہے۔
اس سے پہلے اس جنگ کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا جو تباہ کن خونی مہم میں تبدیل میں ہو چکی ہے۔ فومن کا کہنا تھا کہ ماسکو نے’کیئف اور چرنی ہیف کی طرف فوجی سرگرمی میں نمایاں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد باہمی اعتماد میں اضافہ اور مزید مذاکرات کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔‘
روس اور یوکرین کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں آج یعنی منگل کو روبرو مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں، جن کا مقصد یوکرین میں جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔
ترکی کی نجی نیوز ایجنسی ڈی ایچ اے کے مطابق روسی حکومت کا ایک طیارہ مذاکرات کرنے والے وفد کو لے کر پہنچ گیا ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات منگل اور بدھ کو جاری رہیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کلیبا نے کہا ہے کہ استنبول مذاکرات میں انسانی صورتحال کو آسان بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا: ’اگر ہم نے دیکھا کہ موڈ تبدیل ہو گیا ہے اور وہ سنجیدہ، ٹھوس بات چیت اور متوازن انتظامات کے لیے تیار ہیں تو معاملات آگے بڑھیں گے۔ اگر یہ ان کے پروپیگنڈے کی گردان ہوئی تو مذاکرات دوبارہ ناکام ہو جائیں گے۔‘
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا مطالبہ ہے کہ ’یوکرین کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے اور وہاں نازی آئیڈیالوجی کا خاتمہ‘ کیا جائے جبکہ غیر جانبدار حیثیت کے نفاذ اور ڈونبیس اور کرائمیا کو یوکرین کا حصہ نہ تسلیم کیا جائے۔
اس حوالے سے یوکرینی وزیر خارجہ دمیترو کلیبا نے اشارہ دیا کہ معاہدے کی بہت کم گنجائش ہے: ’ہم لوگوں، زمین اور خودمختاری پر سودی بازی نہیں کرتے۔ ہمارا موقف ٹھوس ہے۔‘
واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں شرکا کو زہر دیے جانے کے الزامات سامنے آئے تھے۔
اے ایف پی نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ روسی کاروباری شخصیت رومن ابرامووچ، جن پر مغرب نے پابندیاں لگا رکھی ہیں اور دیگر یوکرینی مذاکرات کاروں میں مبینہ طور پر آنکھیں سرخ ہونے اور جلد چھلنے سمیت دیگر علامات پیدا ہوئیں۔ اگرچہ بعد میں وہ صحت یاب ہوگئے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق ان امن مذاکرات سے قبل یوکرینی افواج نے دارالحکومت کیئف کے ایک اہم مضافاتی علاقے ارپن پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
مغربی ماہرین نے ارپن کے نقصان کو روسی افواج کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے جو پہلی ناکام کوشش کے بعد اب دوبارہ دارالحکومت کئیف کے گھیراؤ کی کوشش کر رہی ہیں۔
اے ایف پی کے صحافیوں نے علاقے میں مسلسل شدید گولہ باری اور انخلا کی کوشش کرنے والے شہریوں کی اموات کا مشاہدہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس لڑائی میں پہلے ہی ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار افراد ہلاک اور ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔
حکام نے یوکرینی دارالحکومت کو درپیش مسلسل خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پیر کو کیئف کے قریب روسی حملوں سے 80 ہزار سے زائد گھروں کی بجلی منقطع ہو گئی۔
جبکہ یوکرین کی افواج شمال میں جوابی حملے کر رہی ہیں اور جنوبی ساحلی شہر ماریوپول پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
روسی افواج نے اس شہر کو گھیر لیا ہے اور مسلسل اور اندھا دھند بمباری شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 60 ہزار افراد کو خوراک، پانی یا دواؤں کے قلت کا سامنا ہے۔
یوکرین کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق اس علاقے یں کم از کم پانچ ہزار افراد پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کا اندازہ ہے کہ جب تمام لاشیں جمع کی جائیں گی تو اصل تعداد 10 ہزار کے قریب ہوسکتی ہے۔
یوکرین کی صدارتی مشیر تیتانا لوماکینا نے پیر کو فون کے ذریعے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلسل گولہ باری کی وجہ سے 10 روز قبل تدفین روک دی گئی تھی۔
یوکرین کی وزارت خارجہ نے اس صورتحال کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس کی جانب سے زمین، سمندر اور فضا سے حملوں کے سبب ایک وقت میں ساڑھے چار لاکھ افراد والا شہر اب تہس نہس ہو گیا ہے۔
مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنگی جرائم کے شواہد دیکھے ہیں جن کی بین الاقوامی فوجداری عدالت پہلے ہی تحقیقات کر رہی ہے۔
پیر کو یوکرین کی پراسیکیوٹر جنرل ایرینا وینیڈیکٹووا نے کہا کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ روسی فورسز نے جنوبی اوڈیسا اور کھیرسن کے علاقوں میں ممنوعہ کلسٹر بم استعمال کیے ہیں۔
نوٹ: بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔