امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دورہ پولینڈ کے دوران ہفتے کو ڈرامائی طور پر یوکرین پر حملے کے تناظر میں روسی صدر ولادی میر پوتن کے خلاف لفظی گولہ باری میں شدت لاتے ہوئے کہا کہ ’یہ شخص اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔‘
تاہم خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جب بائیڈن کے ان الفاظ نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی تو وائٹ ہاؤس نے بائیڈن کے پولینڈ میں خطاب کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا وہ روس میں نئی حکومت کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدیدار نے زور دے کر کہا کہ بائیڈن ’روس میں پوتن کے اقتدار یا حکومت کی تبدیلی پر بات نہیں کر رہے تھے۔‘
وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ صدر بائیڈن کے کہنے کا مقصد تھا کہ ’پوتن کو اپنے پڑوسیوں یا خطے پر طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر یہ تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا پوتن کے بارے میں بائیڈن کا بیان ان کی پہلے سے لکھی گئی تقریر کا حصہ تھا۔
یورپ کے چار روزہ دورے کے موقعے پر صدر بائیڈن نے پولینڈ کے دارالحکومت میں ایک تقریر کے بالکل اختتام پر کہا: ’خدا کے لیے یہ شخص اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔‘
صدر بائیڈن اس سے قبل بھی کئی بار کہہ چکے تھے کہ کریملن کا یوکرین پر حملہ پوتن کے لیے ایک ’سٹریٹجک ناکامی‘ ثابت ہو گی اور یہ کہ روسی صدر ’جنگی مجرم‘ ہیں لیکن وارسا میں دیے گئے ان کے اس ہنگامہ خیز بیان سے پہلے امریکی صدر نے پوتن کو اقتدار سے باہر کرنے کی کبھی بات نہیں کی تھی۔
اس سے قبل ہفتے ہی کے روز پولش سرحدی قصبے میں یوکرینی پناہ گزینوں سے ملاقات کے موقع پر بائیڈن نے پوتن کو ’قصاب‘ قرار دیا تھا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بائیڈن کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’یہ امریکی صدر کا اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ روس میں کون اقتدار میں رہے گا۔‘
پیسکوف نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’صرف روسی عوام، جو اپنے رہنما کو ووٹ سے منتخب کرتے ہیں، اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور یقیناً امریکی صدر کو ایسے بیانات دینا زیب نہیں دیتا۔‘
بائیڈن کے اس طرح کے بیانات پر ماسکو اور واشنگٹن کے تعلقات پر اثرات کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر کریملن کے ترجمان نے اسے ’انتہائی منفی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ صدر بائیڈن کا روزانہ کا معمول بن چکا ہے اور ایسے ہر بیان کے ساتھ وہ ہمارے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے مواقعے کو کم کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ ہفتے روس نے ماسکو میں امریکی سفیر جان سلیوان کو خبردار کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات خطرے میں ہیں کیونکہ واشنگٹن نے روس پر تکلیف دہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
جمعرات کو روس نے امریکی سفارت خانے کے تقریباً ایک درجن سفارت کاروں کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے کر ان کو روس سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر بائیڈن نے وارسا کے رائل کیسل میں خطاب کے دوران خبردار کیا کہ پوتن کے یوکرین پر حملے سے ’دہائیوں کی جنگ‘ کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا: ’اس جنگ پر ہمیں واضح نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ جنگ دنوں یا مہینوں میں نہیں جیتی جا سکتی۔‘
بائیڈن نے مزید کہا: ’ہمیں اب یہ عہد کرنا ہوگا کہ اس لڑائی کو طویل فاصلے تک پہنچایا جائے۔‘
بائیڈن نے پوتن کو ان کے اس دعوے پر بھی سرزنش کی کہ اس حملے کا مقصد یوکرین کو ’ڈی نازیفائی‘ کرنا ہے حالانکہ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی خود یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد کا خاندان ہولوکاسٹ میں مارا گیا تھا۔
بائیڈن نے کہا: ’پوتن کا حوصلہ تو دیکھیں جو یوکرین کو ڈی نازیفائی کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ صرف مذموم کوشش ہے اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ بیہودہ دعویٰ ہے۔‘
امریکی صدر نے نیٹو اتحاد کا بھی دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو نے کئی مہینوں تک سفارتی ذرائع سے روس کے حملے کو روکنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق جنگ نے امریکہ کو پولینڈ اور مشرقی یورپ میں اپنی فوجی موجودگی بڑھانے پر مجبور کیا ہے اور سکینڈینویین ممالک جیسے کہ فن لینڈ اور سویڈن اب نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دینے پر غور کر رہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ کریملن نیٹو کی توسیع کو ایک سامراجی منصوبے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد روس میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے حالانکہ نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے جس نے کبھی بھی روس کے خاتمے کی کوشش نہیں کی۔