منحنی سے دیہاتی محمد رفیق (فرضی نام) اسلام آباد کے ایک اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہیں اور کمپاؤنڈر کی طرف اسپتال کی پرچی اور پلاسٹک کا شاپر بڑھاتے ہوئے انجیکشن لگوانے کی درخواست کرتے ہیں۔
کمپاؤنڈر اپنے سامنے رکھے ٹرے میں سے ڈسپوز ایبل سرنج اٹھانا ہی چاہتا ہے کہ محمد رفیق شاپر میں موجود سرنج استعمال کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ کمپاؤنڈر کو شاپر میں دوائی کی شیشی کے ساتھ ایک آٹو ڈسٹریکٹیو (ایک مرتبہ استعمال کے بعد خود بخود بے کار ہونے والی) سرنج ملتی ہے، جس کا مشاہدہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ’یہ تو بہت مہنگی ہے۔‘
45 سالہ محمد رفیق چہرے پر مسکراہٹ سجائے جواب دیتے ہیں:’ جی ہاں مہنگی تو ہے، لیکن محفوظ ہے۔‘
فیصل آباد کے محمد رفیق ایک مرتبہ استعمال کے بعد خود بخود قابل استعمال نہ رہنے والی (آٹو ڈسٹریکٹیو) سرنج کے علاوہ کسی دوسری سرنج سے انجکشن نہیں لگواتے۔ ایسا وہ گذشتہ تقریباً ایک سال سے کر رہے ہیں، جب ان کے والدین اور گاؤں کے کئی دوسرے افراد میں ایڈز کا باعث بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے: ’میری ماں اور باپ دونوں ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ وہ ساری عمر مہنگی دوائیاں کھاتے رہیں گے۔‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً 13 لاکھ افراد سرنج کے بار بار استعمال کی وجہ سے منتقل ہونے والی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ایسی بیماریوں میں ہیپاٹائٹس اور ایڈز سرفہرست ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں اندازاً ایک لاکھ 65 ہزار افراد ایڈز کے مرض کا باعث بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جن میں ہر سال 20 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام سے متاثر ہیں اور یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
حال ہی میں سندھ اور پنجاب میں سینکڑوں افراد کے ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور ماہرین کے مطابق ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال نئے کیسز کی بڑی تعداد کی وجہ بنا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں انتقالِ خون اور ایک سرنج کا بار بار استعمال شامل ہیں۔ انتقالِ خون چونکہ صرف بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے جہاں اس کی سکریننگ کا نظام کافی حد تک نافذ ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے سینئیر منیجر ڈاکٹر قائد سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سندھ میں اس وائرس سے متاثر ہونے والوں میں 57 فیصد بچے ہیں، جن کے والدین ایچ آئی وی پازیٹو نہیں ہیں۔
ایسے میں امکان یہی ہے کہ ان بچوں میں وائرس ایک ہی سرنج کے بار بار استعمال سے منتقل ہوا ہوگا۔
ڈاکٹر قائد سعید کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ انجیکشن لگانے کو ترجیح دیتے ہیں، خاص کر عطائی ڈاکٹرز تو ایک ہی سرنج بار بار استعمال کرتے ہیں، جو ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایچ آئی وی کے موجودہ پھیلاؤ کو فوراً روکنے کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ ڈسپوز ایبل اور دوسری تمام سرنجز کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے اور آٹو ڈسٹریکٹیو سرنجز کو عام کیا جائے۔
آٹو ڈسٹریکٹیو سرنج کیا ہے؟
انگلستان کے ایک نوجوان مارک اینڈریو کوسکا نے 1984 میں اخبار میں ایک ہی سرنج کے بار بار استعمال کے باعث ایچ آئی وی کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق ایک مضمون پڑھا اور اتنا متاثر ہوا کہ اس نے آئندہ 27 سال سوئیوں اور سرنجوں پر تحقیق کرتے ہوئے گزار دیے۔
آخر کار مارک اینڈریو کوسکا 2009 میں ایک ایسی سرنج بنانے میں کامیاب ہوگیا، جو ایک مرتبہ کے استعمال کے بعد قابلِ استعمال نہیں رہتی۔ مارک نے اپنی ایجاد کو ’کے ون‘ سرنج کا نام دیا۔ دنیا اسے آٹو ڈسٹریکٹیو یا سیلف ڈسٹریکٹیو سرنج کے نام سے بھی جانتی ہے۔
کے ون دوسری کسی بھی سرنج کی طرح کی ایک عام سی سرنج ہے اور اس کا استعمال بھی بالکل مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کے ون صرف ایک مرتبہ استعمال کی جاسکتی ہے اور استعمال کے بعد وہ جیسے جام ہو جاتی ہے اور اس میں دوبارہ دوائی نہیں بھری جا سکتی۔
پاکستان میں آٹو ڈسٹریکٹیو سرنجز کا استعمال؟
پاکستان میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں چند سال قبل ایک قانون کے ذریعے آٹو ڈسٹریکٹیو سرنجز کے استعمال کو لازمی قرار دیا گیا۔ دوسرے کسی صوبے میں یا وفاقی سطح پر ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جبکہ بدقسمتی سے سندھ میں بھی اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
حال ہی میں لاڑکانہ میں سامنے آنے والے سینکڑوں ایچ آئی وی پازیٹیو کیسز اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر قائد سعید کے مطابق پاکستان میں یہ مخصوص سرنج موجود ہے، لیکن عوام میں آگہی کم ہونے کے باعث اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
تقریباً سارے پاکستان میں ایک عام ڈسپوز ایبل سرنج کی قیمت دس روپے سے کم ہے جبکہ ایک آٹو ڈسٹریکٹیو سرنج تقریباً پندرہ روپے میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں صرف ایک کمپنی آٹو ڈسٹریکٹیو سرنجز بناتی ہے۔
ڈاکٹر قائد سعید کے مطابق: ’یہ مخصوص سرنجز پڑوسی ملک چین میں بھی بنتی ہیں۔ استعمال بڑھ جائے تو پاکستان میں ان کی پیداوار بھی بڑھ جائے گی۔‘
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت گزشتہ جمعے کو کراچی میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں ایچ آئی وی یا ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق ایکشن پلان ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ آٹو ڈسٹریکٹیو سرنج کے استعمال کو عام کرنے کے لیے بھی لائحہ عمل طے کیا گیا، جس کا مقصد یہ ہے کہ محمد رفیق کی طرح دوسرے پاکستانی بھی صرف یہی مخصوص سرنج استعمال کریں اور اپنے آپ کو ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں سے بچا سکیں۔